بدترین شکلیں اور دنیا بھر کے کٹر اسلام دشمن، ان کو راہِ حق سے نہیں ہٹاسکے۔ اسی طرح کیا افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیااور خود پاکستان میں لال مسجد کے معصوم طلبہ، طالبات، اساتذہ اور بے قصور مظلوموں نے یہ ثابت نہیں کردیا؟ کہ حق و سچ کا داعی مرتو سکتا ہے، مگر اپنی دعوتِ حق کو ایک لمحہ کے لئے روک سکتا ہے اور نہ اس پر سودے بازی کرسکتا ہے۔
ان تفصیلات کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قادیانیوں کا اپنے مذہب کی تبلیغ پر پانچ سال تک خود ساختہ پابندی لگانا اور دعوت کو موقوف کرنا، کیا ان کے سچے ہونے کی علامت ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ یہ ان کے جھوٹا ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
اس سب سے قطع نظر، بہرحال تمام مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان ، بنگلہ دیش، بھارت، متحدہ عرب امارات اور مصر کے دین دار اور اسلام سے ہمدردی رکھنے والے افراد کو سوچنا چاہئے کہ قادیانی کفر و ارتداد نے پانچ سال بعد پھر انگڑائی لی ہے اور وہ ایک بار پھر نئے ولولے اور جذبہ سے اپنی الحادی تحریک کے مردہ میں روح پھونکنے کے لئے پر تول رہا ہے، لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ جس طرح گزشتہ سو سال سے وہ اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے ہمت، جرأت اور بیدار مغزی کا ثبوت دیتے آئے ہیں... یہاں تک کہ قادیانی یہ سمجھنے پر مجبور ہوگئے کہ مسلمانوں کے دین و ایمان کو چھیڑنا اور اپنی جھوٹی دعوت کا اظہار کرنا، اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے... ٹھیک اسی طرح اگر انہوں نے آج بھی قادیانی فتنہ کے سامنے بیداری کا ثبوت دیا تو وہ ایک بار پھر اسی طرح اپنی بلوں میں گھس جائیں گے جس طرح گزشتہ پانچ برسوں سے اپنی پناہ گاہوں میں چھپے ہوئے تھے۔ تجربہ شاہد ہے کہ باطل اور باطل پرستوں میں ہمت و جرأت نہیں ہوتی، لہٰذا اگر مسلمان، قادیانیوں کے مقابلہ میں سینہ تان کر کھڑے ہوجائیں یا ان کا تعاقب کرنا شروع کردیں، تو وہ مسلمانوں کے نام سے ایسے بھاگیں گے، جس طرح کانا دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سایہ سے بھاگے گا۔
قادیانی سربراہ مرزا مسرور احمد کا پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، مصر اور متحدہ عرب امارات کو اپنی تبلیغ کے لئے موزوں قرار دینا، اس کی خود فریبی اور اپنے ماننے والوں کے لئے طفل تسلی سے بڑھ کر کچھ نہیں، ورنہ وہ خود بھی جانتا ہے کہ بحمداللہ! پاکستان میں اب قادیانیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں، اس لئے کہ اب قانون اور آئین کی رو سے ان کی کھلے عام تبلیغ پر پابندی ہے، وہ