ہوگیا، چنانچہ سب سے پہلے گھنٹہ بھر راقم الحروف کا اور پھر مولانا اللہ وسایا صاحب کا اور اس کے آخر میں حضرت ڈاکٹر صاحب کا مفصل بیان ہوا، چنانچہ ساڑھے چار بجے وہاں سے فراغت کے بعد کولمبو کے لئے واپسی ہوئی اور رات کو واپس اپنی رہائش گاہ پر آگئے، جمعرات کی رات کو اپنی قیام گاہ پر آرام کیا۔
اگلا دن جمعرات اور ۱۵؍مارچ کا تھا، صبح ناشتہ اور معمولات سے فارغ ہونے کے بعد مشورہ ہوا اور مشورہ میں طے ہوا کہ :
۱… حضرت ڈاکٹر صاحب ہفتہ کے دن ہونے والی کانفرنس کے بیان کے لئے ’’موقف الامت الاسلامیہ‘‘ کی روشنی میں ایک مذاکرہ تیار کریں گے جو آپ نے تقریباً پچیس منٹ میں بیان کرنا ہے، جس کا خلاصہ بعد میں چند منٹوں میں بیان کردیا جائے گا۔
۲… راقم الحروف (مولانا سعید احمد جلال پوری صاحبؒ) قراردادیں تیار کریں گے جس میں ختم نبوت کے عقیدہ اور اس پر اجماع امت کا ذکر کریں گے اور یہ کہ جو آپﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے وہ باتفاق امت کافر ہے اور یہ کہ مرزا نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اس بنیاد پر امت نے متفقہ طور پر مرزا اور اس کے متبعین کو کافر قرار دیا ہے، اس ضمن میں رابطہ کی قرارداد کا حوالہ، پاکستان کی قومی اسمبلی کے فیصلہ کا حوالہ مختلف عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیا جائے۔
۳… شروع میں مفتی رضوی صاحب افتتاحی کلمات پیش کریں گے اور اپنے افتتاحی کلمات سے موتمر کا افتتاح کریں گے اور اپنی مقامی زبان میں اس کانفرنس کی غرض و غایت بیان کریں گے۔
اسی دن حضرت ڈاکٹر صاحب کا مولانا نواز صاحب کے کلیۃ المحمدیہ اور مولانا عبدالخالق صاحب کے کلیۃ ابن عمر کے دورئہ حدیث کے طلبا سے خطاب تھا۔ اسی طرح جناب مولانا حسن فرید صاحب کے کلیہ نورانیہ میں جانے اور بات چیت کا موقع بھی ملا، اسی شام کو جناب مولانا مفتی محمد رضوی صاحب نے مقامی سربرآوردہ حضرات اور وکلا سے ملاقات اور میٹنگ کا ایک مشہور ہوٹل ’’کیفے آسیا‘‘ میں انتظام کررکھا تھا، چنانچہ بعد نماز مغرب اس خوبصورت ہوٹل کا جتنا حصہ بک کرایا گیا تھا، حاضرین سے کھچا کھچ بھر گیا، جناب احمد چوہان اور حضرت ڈاکٹر صاحب نے اس سلسلہ میں نہایت موثر بات چیت کی اور جناب مفتی محمد رضوی صاحب نے ان حضرات کو اس