محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ بھی نیند سے بیدار ہوگئے، ابھی وہ مکمل اور پورے طور پر بیدار بھی نہ ہوئے تھے کہ ان کے کانوں میں بھی اس گفتگو کی بھنک پڑ گئی، تو اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مرزا کی فلاں کتاب اٹھا لائو، چنانچہ جب مرزا کی وہ کتاب لائی گئی تو انہوں نے کتاب کھولی اور چند صفحے پلٹنے کے بعد وہ حوالہ نکال کر سب کو حیران کردیا۔
ان حضرات کی حاضر دماغی، قوت حافظہ، مرزائیت پر عبور، مسئلہ ختم نبوت اور تردیدِ قادیانیت سے والہانہ لگائو کا میرے قلب و دماغ پر آج بھی نقش ثبت ہے ۔ جناب احمد چوہان صاحب حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرصاحبؒ کے اس ٹرنک کا بطور خاص بار بار تذکرہ فرماتے، جس میں حضرت مرحومؒ قادیانی کتب بھر کر لے گئے تھے اور بوقت ضرورت اس ٹرنک سے کتب نکال نکال کر حوالے دیتے تھے۔
چونکہ جناب احمد چوہان صاحب ان حضرات اکابر کی خدمت اور صحبت میں رہ چکے تھے اور کیپ ٹائون جنوبی افریقہ کی عدالت میں دائر قادیانی مقدمہ میں مسلمانوں کے وکیل رہ چکے تھے اور ان حضرات کی ہدایت و راہنمائی میں قادیانیت کو سمجھ چکے تھے، اس لئے ان کو اس معاملہ کی تمام باریکیوں اور قادیانی مکر و فریب اور عدالتی موشگافیوں کا خوب خوب تجربہ تھا، اس لئے جناب مولانا مفتی محمد رضوی صاحب نے اپنے ملک کے مسلم وکلاء اور ججز کو یہ مسئلہ سمجھانے کے لئے انہیں سری لنکا آنے کی زحمت دی تھی اور وہ یہاں آنے پر بے حد مسرور و مطمئن تھے، بہرحال حسب پروگرام پہلے دن کچھ دیر آرام اور سفری تھکان اتارنے کے بعد شام کو کولمبو کے تبلیغی مرکز کے مدرسہ میں حاضری ہوئی، وہاں کے اکابر و اساتذہ سے ملاقات اور حضرات طلبا و اساتذہ کرام سے حضرت اقدس مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر زید مجدہ کا بیان ہوا، وہاں سے فارغ ہونے کے بعد رات کو واپس اپنی رہائش گاہ آگئے۔
اگلا دن ۱۲؍مارچ اور پیر تھا، اس دن حسب پروگرام آگے کے پروگراموں کو حتمی شکل دینے اور کام کی نوعیت اور تقسیم کار کے سلسلہ میں مقامی علماء اور اکابر کے ساتھ مشورہ ہوا کہ کس طرح ملک بھر کا دورہ کیا جائے اور کس کس جگہ پر تربیتی پروگرام رکھے جائیں۔ یوں پیر ۱۲؍مارچ کو طے ہوا کہ اس چار رکنی وفد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔
چنانچہ منگل ۱۳؍مارچ کو حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب اور مولانا مفتی خالد محمود