حضرت اقدس مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر زید مجدہ اور مولانا مفتی خالد محمود صاحب کی رہائش تھی، دوسرے میں راقم الحروف اور شاہین ختم نبوت حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب تھے ، جبکہ تیسرا کمرہ کیپ ٹائون جنوبی افریقہ سے تشریف لانے والے وکیل ختم نبوت جناب احمد چوہان افریقی اور ان کے ہم ملک عالم دین مولانا محمد طٰہٰ یوسف کے لئے خاص تھا۔
چونکہ جمعیت علماء سری لنکا کے سربراہ مولانا مفتی محمد رضوی سلمہ ربہ سری لنکا میں سر اٹھاتے مسئلہ قادیانیت کی سرکوبی کے لئے بہت زیادہ فکر مند تھے اس لئے انہوں نے قانونی مشوروں کے لئے جنوبی افریقہ کے مشہور مقدمۂ قادیانیت میں مسلمانوں اور ختم نبوت کے کامیاب وکیل جناب احمد چوہان صاحب کو بھی اس موقع پر بلا رکھا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی جناب احمدچوہان تشریف لائے اور ان کی ختم نبوت کے اکابر اور ارکان وفد سے ملاقات ہوئی تو وہ نہال ہوگئے اور اس مشہور مقدمہ میں پاکستان سے تشریف لے جانے والے وفد کے معزز ارکان اور اکابر میں سے ایک ایک کا عقیدت و محبت سے والہانہ تذکرہ کرکے ان کے محاسن و کمالات اور اس سلسلہ میں ان کی مساعی کا ذکر خیر کرنے لگے اور اس مقدمہ کی کارروائی مزے لے لے کر سنانے لگے، اس وفد کے ارکان اور اکابر میں سے حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی شہادت و وفات سے تو وہ آگاہ تھے مگر حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر قدس سرہ کی وفات سے ابھی تک وہ نا آشنا تھے۔ اس لئے انہوں نے حضرت مولانا اشعرؒ کا بطور خاص پوچھا کہ ان کا کیا حال ہے؟ جب انہیں بتلایا گیا کہ وہ بھی اللہ کے ہاں جاچکے ہیں تو بہت ہی افسردہ ہوئے، پھر فرمانے لگے: میں اس وفد کے ارکان میں سے دو حضرات سے بہت ہی زیادہ متاثر ہوا اور وہ تھے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ اور مولانا عبدالرحیم اشعرؒ یہ دونوں حضرات ایسے تھے کہ ان کے پاس قادیانی وکیلوں اور قادیانی مربیوں کے ہر سوال کا نہ صرف جواب ہوتا تھا بلکہ انہیں مرزاقادیانی کی کتابیں اور ان کے حوالہ جات ازبر تھے، ادھر ہم نے کوئی سوال کیا، ادھر انہوں نے مرزا کی کوئی کتاب کھول کر اس کا جواب، خود مرزا کی زبانی پیش کردیا، ان کو مرزائی حوالہ جات کی تلاش کے لئے کسی سوچ و بچار اور غوروفکر کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، چنانچہ انہوں نے بتلایا کہ ایک دن کی بات ہے کہ رات بھر دیر تک مقدمہ کی تیاری کا سلسلہ جاری رہا، صبح کی نماز پڑھی اور ارکان وفد سوگئے، بیداری پر ایک مسئلہ پر گفتگو جاری تھی اور کوئی حوالہ نہیں مل رہا تھا، اتنے میں حضرت مولانا