میرے عزیز! جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مرزاقادیانی انگریز کے خود کاشتہ تھے، یہ ہم نے نہیں لکھا، بلکہ یہ مرزاقادیانی کا اپنا اقرار ہے، لہٰذا اس کے لئے ہمیں اپنی طرف سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ خود مرزا جی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں، ملاحظہ ہو: ’’صرف یہ التماس ہے کہ سرکارِ دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جاں نثار خاندان ثابت کرچکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار۔ (حاشیہ ضمیمہ انجام اتھم ص۶)
۹… انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں، اس ’’خود کاشتہ پودا‘‘کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھے کہ مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنا خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے، لہٰذا ہمارا حق ہے کہ خدمات گزشتہ کے لحاظ سے سرکار، دولت مدار کی پوری عنایت اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں تاکہ ہر ایک شخص بے وجہ ہماری آبرو ریزی کے لئے دلیری نہ کرسکے۔‘‘ (درخواست بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ، منجانب خاکسار مرزا غلام احمد،از قادیان مورخہ ۲۲؍ فروری ۱۸۹۸ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱،۲۲)
رہی یہ بات کہ مرزا غلام احمد قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو راست باز سمجھتے تھے اور انہوں نے ان کی توہین نہیں کی، اس کے لئے مرزاقادیانی کی درج ذیل دل آزار اور توہین و تنقیص پر مبنی تحریریں ملاحظہ ہوں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق لکھا: ’’ممکن ہے کہ آپ نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور وغیرہ کو اچھا کیا ہو یا کسی اور ایسی بیماری کا علاج کیا ہو۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)۱… ’’پس اس نادان اسرائیلی نے ان معمولی باتوں کا پیشین گوئی کیوں نام رکھا۔ ‘‘
(ضمیمہ انجام اتھم ص۴ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۸۸)
۲… ’’ہاں آپ کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی، ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ آجاتا تھا، اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)