نفرت تحریریں نہیںد کھاتے، ہاں جب کوئی انسان مکمل طور پر ان کے رنگ میں رنگ جاتا ہے تب وہ اس کو مرزاقادیانی کی اصل تصویر دکھاتے ہیں، چونکہ اس وقت تک وہ اپنی متاعِ دین و ایمان غارت کرچکا ہوتا ہے اور اپنی کشتیاں جلا کر قادیانی جہنم میں کود چکا ہوتا ہے، اس لئے وہ اپنے اندر قادیانی نوازشات سے منہ موڑنے کی ہمت و جرأت نہیں پاتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ بعض اوقات کچھ خوش قسمت، حقیقت ِ حال واضح ہوجانے کے بعد، قادیانیت پر دو حرف بھیج کر دوبارہ اسلام کی طرف لوٹ آتے ہیں، چنانچہ قادیانیوں کے دجل اور ایک سلیم الفطرت انسان کی قادیانیت سے تائب ہونے کی داستان اور تفصیلات ملاحظہ ہوں: ’’خاکسار کا نام محمد مالک ہے‘ عرصہ دراز سے جرمنی میں مقیم ہوں‘ میری جرمن بیوی ہے‘ جس سے چار بچے ہیں‘ پھولوں کی دو دکانیں ہیں‘ یہاں ذاتی مکان ہے‘ شکر الحمدللہ کہ اچھی گزر بسر ہورہی ہے۔
میرے احمدی دوست بلکہ اب قادیانی کہنا مناسب ہوگا‘ کافی تھے‘ ان ہی سے امام مہدی کا ذکر سُنا اور قادیانی ہوگیا‘ مجھے بتایا گیا کہ یہ وہی امام مہدی ہے‘ جس کا ذکر آنحضرتﷺ نے کیا تھا۔ یہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۹۸ء کا واقعہ ہے۔ مجھ پر گھر والوں‘ دوستوںاور رشتہ داروں کا بہت دبائو پڑا مگر میں ثابت قدم رہا‘ میں نے سو مساجد اسکیم کے تحت (قادیانیوں کو) بیس ہزار مارک دینے کا وعدہ بھی کیا‘ جس میں سے تقریباً سولہ ہزار کی ادائیگی کردی‘ ماہانہ چندہ مع فیملی کے تقریباً چار سو مارک دیتا رہا‘ تقریباً ایک سال میں مجلس انصار اللہ جماعت پُل ہائم کا زعیم بھی رہا۔ چند ماہ قبل ایک قادیانی دوست نے ہی مجھے بتایا کہ: ’’ ہم مرزا غلام احمد کو صرف امام مہدی ہی نہیں بلکہ نبی اور رسول بھی مانتے ہیں اور ایک جگہ مرزاقادیانی یہ بھی لکھتے ہیں کہ: میں نے کشف میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ میرے جسم میں داخل ہوگیا اور مجھ میں تحلیل ہوگیا اور میں نے محسوس کیا کہ اب میں ہی خدا ہوں اور اس کے بعد ساری دنیا میں نے بنائی وغیرہ وغیرہ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص۵۶۴)
میں نے اسی وقت جماعت سے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھے دھوکہ میں رکھا گیا ہے‘ مجھے بتایا گیا کہ ہم قرآن اور حدیث کی روشنی میں یہ سب کچھ ثابت کرسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ محترم مربی جلال شمس صاحب تشریف لائیں او رمیں مسلمان علماء سے رابطہ کرتا ہوں‘ دونوں آمنے سامنے بیٹھیں‘ جو بھی سچا ہوگا ‘میں مان لوں گا۔‘‘ (پیکر اخلاص، ص:۹۰،۹۱)