دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبیؐ جس کا نام محمدؐ ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے، اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا، وہ توحید جو دنیا سے گم ہوچکی تھی، وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا، اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع انسان کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی، اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا، اس کو تمام انبیاء علیہم السلام اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی.... ہر ایک فضیلت کی کنجی اسؐ کو دی گئی ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۱۵،۱۱۶، خزائن ج۲۲ ص۱۱۸،۱۱۹)
٭… (چشمہ معرفت) میں ہے: ’’محمد عربی بادشاہ ہر دو،سرا، کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی، اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پر کہتا ہوں، کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۸۹، خزائن ج۲۳ ص۳۰۲)
٭… (اتمام الحجۃ) میں ہے کہ: ’’ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس ؑ، ایوب ؑ اور مسیحؑ بن مریم، ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی۔ اگرچہ سب مقرب اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے، یہ اس نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔ اللہم صل وسلم و بارک علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین۔‘‘
(اتمام الحجۃ ص۳۶، خزائن ج۸ ص۳۰۸)
٭… جہاں تک حضرت مسیح ابن مریم کی توہین کا الزام ہے تو یہ بھی قادیانیوں کو ہی سچا ثابت کرتا ہے کہ اگر مرزاقادیانی انگریزوں کے خود کاشتہ تھے تو ان کے خدا کی توہین کیونکر کرسکتے تھے؟ جب کہ مرزاقادیانی حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی سچا اور برحق نبی مانتے تھے۔
٭… اپنی تصنیف (تحفہ قیصریہ ص۲۰،خزائن ج۱۲ص۲۷۲) پر ہے: ’’مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں۔‘‘
٭… (کتاب البریہ ص۱۳۶، خزائن ج۱۳ ص۱۵۴) میں ہے: ’’ہم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک صادق اور راست باز اور ہر ایک ایسی عزت کا مستحق سمجھتے ہیں جو سچے نبی کو دینی چاہئے۔‘‘٭… قادیانیوں کے بہت سارے حوالوں میں سے میں نے چند عرض کئے ہیں۔ اب آپ پر لازم ہے کہ اپنی بات کہ مرزاقادیانی نے تمام نبیوں کی توہین کی ہے۔ ثابت کریں۔ اگر ایسا نہ کیا تو کس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوگا؟ منجانب: انعام الحق، کراچی‘‘
۱۴؍مئی۲۰۰۸ء