قیمت سو اونٹ یا ان کی قیمت ادا کرے گا۔ مثلاً آج اگر ایک اونٹ کی قیمت ۲۵ہزار روپے ہے تو سو اونٹ کی قیمت ۲۵لاکھ روپے ہوگی۔ بھلا جو شخص ایک بار اپنی غلطی کی سزا ۲۵لاکھ کی ادائیگی کی شکل میں بھگت لے گا۔ وہ آئندہ کتنا محتاط ہو جائے گا؟ اور اس کی نگاہ میں انسانی جان کی کتنی قدروقیمت ہوگی؟
پھر چونکہ کسی مسلمان کا قتل معاشرے کا انتہائی گھناؤنا جرم ہے۔ اس لئے اﷲتعالیٰ کے ہاں یہ بہت ہی مبغوض وناپسندیدہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ’’ومن یقتل مؤمنا متعمداً فجزأوہ جہنم خالداً فیہا (النسائ:۹۳)‘‘ {اور جو کوئی قتل کرے مسلمان کو جان کر تو اس کی سزا دوزخ ہے۔ پڑا رہے گا اسی میں۔}
اگرچہ جمہور علمائے امت اس کے قائل ہیں کہ کفر وشرک کے علاوہ ہر جرم معاف ہوسکتا ہے اور کسی جرم کی سزا ہمیشہ کے لئے جہنم کی شکل میں نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’اﷲتعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائیں گے۔ اس کے علاوہ جسے چاہیں گے معاف فرمادیں گے۔‘‘ (النسائ:۴۸) مگر بہرحال اتنا تو ضرور ہے کہ ایسا شخص اگر بغیر توبہ کے مرگیا تو اسے کافی عرصے تک جہنم میں جلنا ہوگا۔ ’’خالداً فیہا‘‘ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ایک عرصے تک اسے جہنم کی سزا سے دوچار ہونا پڑے گا۔
اس لئے حضرت امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ قاتل کا قصاصاً قتل ہوجانا یا دیت کا ادا کر دینا اس کی آخرت کی سزا کا بدل نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو ان دنیاوی سزاؤں کا سامنا کرنے کے بعد آخرت کی سزا سے بچنے کے لئے خلوص واخلاص اور صدق دل سے توبہ بھی کرنا ہوگی۔ ورنہ اسے آخرت کی سزا کا بہرحال سامنا کرنا ہوگا۔
مگر چونکہ قتل کے جرم میں حق تعالیٰ کے ساتھ حق عبد بھی شامل ہے۔ اس لئے دنیاوی طور پر اس حق عبد کی وصولی کا اختیار مقتول کے ورثاء کو ہی حاصل ہے۔ اگر وہ دعویٰ کریں گے تو شریعت ان کو ان کا حق دلائے گی اور اگر وہ اپنے اس حق سے دستبردار ہونا چاہیں تو عقل ودیانت اور دین وشریعت انہیں اپنے اس حق کی وصولی پر مجبور بھی نہیں کرے گی۔ بلکہ مہذب دنیا کے کسی قانون میں یہ بات شامل نہیں کہ کوئی آدمی اپنے حق سے دستبردار ہونا چاہئے اور قانون اسے دستبردار نہ ہونے دے۔
لہٰذا قادیانیوں اور ان کے ولیان نعمت عیسائیوں اور یورپ کے مستشرقین کی جانب سے یہ خدشہ پیش کر کے اس قانون دیت وقصاص پر اعتراض کرنا کہ: ’’اگر مقتول کے وارثوں