اس سنے سمجھا کہ سامنے والا ہیولا شبیہ کسی جنگلی جانور یا شکار کی ہے۔ مگر اتفاق سے وہ کوئی انسان تھا جو شکاری کی گولی کا نشانہ بن کر مرگیا۔ پہلی صورت کو ’’قتل عمد‘‘ کہتے ہیں۔ جس کی سزا قصاص ہے۔ دوسری صورت ’’قتل خطائ‘‘ کی ہے اور اس کی سزا دیت اور خوں بہا ہے۔ قتل عمد اگر مقتول کے وارث قصاص لینے کی بجائے فی سبیل اﷲ! یا خوں بہالے کر قاتل کی جان بخشی کرنا چاہیں تو شریعت نے ان کو اختیار دیا ہے… مگر اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اگر بالفرض قاتل، قصاص سے بچ جائے تو حکومت بھی اس کو اس کی اس درندگی پر کوئی سزا نہ دے۔ یا اس کی درندگی کی روک تھام کے لئے اسے کسی مناسب تعزیر سے بھی بری قرار دے دے۔ یہی وہ صورت ہے جس پر قادیانیوں کو اعتراض ہے۔
مگر افسوس! کہ ان کا اعتراض کسی واقعی اور عقلی شبہ کی بناء پر نہیں ہے۔ بلکہ محض اپنے یورپی آقاؤں اور عیسائی محسنوں کی ہم نوائی اور خوشنودی حاصل کرنے کی ناکام کوشش ہے۔
اس لئے کہ قانون دیت وقصاص جو دراصل قتل وغارت گری کے سدباب کا بہترین ومؤثر ذریعہ ہے۔ اس میں محض فرضی احتمالات کے ذریعے کیڑے نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو قصاص ودیت کے اس قانون کے نفاذ اور اس پر عمل درآمد کی صورت میں کسی طالع آزما کو کسی معصوم کی جان سے کھیلنے کی جرأت نہیں ہوسکتی۔
اس لئے کہ اگر گواہوں سے یہ ثابت ہو جائے کہ قاتل نے جان بوجھ کر اس جرم کا ارتکاب کیا ہے تو اس کو قصاصاً قتل کیا جائے گا اور اگر کوئی قاتل اپنے اس جرم کی وجہ سے کیفرکردار کو پہنچ جائے تو اس سے پورے معاشرے کو قتل وغارت گری سے نجات مل جائے گی اور آئندہ کسی قاتل کو اس گھناؤنے جرم کے ارتکاب سے پہلے سو بار سوچنا ہوگا کہ میں جو کام کرنے جارہا ہوں۔ اس کی سزا میں میں خود بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔ لہٰذا اس جرم کے ارتکاب کا معنی یہ ہے کہ میں اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے جارہا ہوں۔ اسی کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے: ’’ولکم فی القصاص حیوٰۃ یاولی الالباب (البقرہ:۱۷۹)‘‘ {اور تمہارے واسطے قصاص میں بڑی زندگی ہے۔ اے عقلمندو!}
لیکن اگر قتل کی کسی واردات میں شواہد، قرائن اور گواہوں سے ثابت ہو جائے کہ واقعی، قاتل نے عمداً اس جرم کا ارتکاب نہیں کیا تو اس صورت میں قاتل کو قصاصاً قتل تو نہیں کیا جائے گا۔ مگر چونکہ قاتل کی ہی غلطی سے مقتول کی جان ضائع ہوئی ہے۔ اس لئے بطور سزا اس پر یہ تاوان رکھا گیا ہے کہ مقتول کے ورثاء کی اشک شوئی کے طور پر وہ مقتول کے وارثوں کو ایک انسانی جان کی