کی مقتول سے لڑائی اور اختلاف ہو تو ان کی پہلی کوشش ہوگی کہ مقتول کے قتل کے بدلے زیادہ سے زیادہ خون بہالے کر صلح کر لیں اور زندگی بھر مزے کریں۔ نہایت سفاہت ودنائت پر مشتمل ہے۔‘‘
اس لئے کہ اگر محض ان مفروضوں کی بناء پر کسی قانون کو مورد الزام ٹھہرا کر اس کی افادیت کا انکار کیا جائے تو بتلایا جائے کہ کون سا قانون اس سے مستثنیٰ ہوسکتا ہے؟ اگر ایسا ہو تو کیا دنیا میں کہیں عدل وانصاف اور جرم وسزا کا قانون روبہ عمل ہوگا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو بتلایا جائے کہ کون سی عدالت، کون سا جج، کون سا وکیل، کون سی عدلیہ بلکہ ملک کا صدر، وزیراعظم یا بڑے سے بڑا عہدیدار اس بدگمانی سے مستثنیٰ یا محفوظ رہ سکتا ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر دنیا میں جرم وسزا کا قانون کیونکر نافذ ہوسکے گا؟ کیا دنیا میں کہیں عدل وانصاف کا وجود ہوگا؟
قادیانیو! ذرا عقل وہوش کے ناخن لو! اور اپنے یورپی محسنوں کی اندھی تقلید میں اسلام، پیغمبر اسلامﷺ پر ایسے لچر اعتراض نہ کرو کہ خود دنیائے کفر بھی تمہارے منہ پر تھوکنے پر مجبور ہو جائے۔
کیا ایسے سوالات پوچھنا بھی توہین رسالت ہے؟
۱۳… ’’اور اسی طرح کے بے شمار سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ان کے بارے میں پوچھنا توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے؟‘‘
جواب… اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح پوری مہذب دنیا کا اصول ہے کہ جب تک کسی شخص کا زبان، بیان، اشارے، کنائے اور شواہد وقرائن سے مجرم ہونا ثابت نہ ہو جائے۔ اس وقت تک وہ کسی سزا مستوجب نہیں ٹھہرتا۔ ٹھیک اسی طرح دین اسلام کا بھی یہی اصول ہے کہ جب تک کسی شخص کی گستاخی اور جرم قول، فعل، زبان، بیان اشارے کنائے اور عمل کا روپ نہ دھارلے، اس وقت تک اسے مجرم باور نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ: ’’انا نجد فی أنفسنا ما یتعاظم أحدنا ان یتکلم بہ، قال أوقد وجدتموہ؟ قالوا: نعم! قال: ذاک صریح الایمان‘‘ (مشکوٰۃ ص۱۸، بحوالہ صحیح مسلم)
یا رسول اﷲ! ایسے ایسے برے خیالات آتے ہیں کہ گردن کٹانا تو گوارا مگر ان کا زبان پر لانا برداشت نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا یہی تو ایمان ہے۔ یعنی اگر بلااختیار دل میں ایسے خیالات آئیں اور ان کو زبان پر نہ لایا جائے۔ نہ تو وہ جرم ہیں اور نہ ہی توہین رسالت کے زمرے میں آئیں گے۔