کو برقرار رکھا گیا۔ لیکن اگر کوئی انتہاء پسند اپنی عجلت پسندی اور حماقت سے اس حد کو بھی پار کر جائے تو اس پر کوئی تعزیر اور تازیانہ ضرور ہونا چاہئے اور وہ تعزیر وتازیانہ یہ مقرر فرمایا کہ تم نے چونکہ اپنی بیوی کو بے قدر چیز اور نکاح کو کھیل بنا رکھا تھا۔ اس لئے تیسری طلاق کے بعد اب تمہارا عورت پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیسری طلاق کی حد پار کرنے والے پر جب تعزیر وتازیانے کے طور پر اس کی بیوی کو اس پر حرام قرار دے دیا گیا۔ تو دوسرے نکاح کے بعد وہ عورت اس کے لئے حلال کیوں قرار دے دی گئی؟ اس سلسلے میں حافظ ابن قیمؒ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’اعلام الموقعین‘‘ میں اس کی نہایت خوبصورت حکمت علت بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں: ’’تین طلاق کے بعد مرد پر عورت کے حرام ہونے اور دوسرے نکاح کے بعد پھر پہلے مرد پر جائز ہونے کی حکمت کو وہی جانتا ہے جس کو اسرار شریعت اور مصالح کلیہ الٰہیہ سے واقفیت ہو۔ پس واضح ہو کہ اس امر میں شریعتیں بحسب مصالح ہر زمانہ اور ہر امت کے لئے مختلف رہی ہیں۔ شریعت توراۃ نے طلاق کے بعد جب تک عورت دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے۔ پہلے مرد کا رجوع اس کے ساتھ جائز رکھا تھا اور جب وہ دوسرے شخص سے نکاح کر لیتی تو پہلے شخص کو اس عورت سے کسی صورت میں رجوع جائز نہ تھا۔ اس امر میں جو حکمت ومصلحت الٰہی ہے۔ ظاہر ہے کیونکہ جب مرد جانے گا کہ اگر میں نے عورت کو طلاق دے دی تو اس کو پھر اپنا اختیار ہو جائے گا اور اس کے لئے دوسرا نکاح کرنا بھی جائز ہو جائے گا اور پھر جب اس نے دوسرا نکاح کر لیا تو مجھ پر ہمیشہ کے لئے یہ عورت حرام ہو جائے گی۔ تو ان امور خاصہ کے تصور سے مرد کا عورت سے تعلق وتمسک پختہ ہوتا تھا اور عورت کی جدائی کو ناگوار جانتا تھا۔ شریعت توراۃ بحسب حال مزاج امت موسوی نازل ہوئی تھی۔ کیونکہ تشدد اور غصہ اور اس پر اصرار کرنا ان میں بہت تھا۔ پھر شریعت انجیلی آئی تو اس نے نکاح کے بعد طلاق کا دروازہ بالکل بند کر دیا۔ جب مرد کسی عورت سے نکاح کر لیتا تو اس کے لئے عورت کو طلاق دینا ہرگز جائز نہ تھا۔
پھر شریعت محمدیہ آسمان سے نازل ہوئی جو کہ سب شریعتوں سے اکمل، افضل، اعلیٰ اور پختہ تر ہے اور انسانوں کے مصالح، معاش ومعاد کے زیادہ مناسب اور عقل کے زیادہ موافق ہے۔ خداتعالیٰ نے اس امت کا دین کامل اور ان پر اپنی نعمت پوری کی اور طیبات میں سے اس امت کے لئے بعض وہ چیزیں حلال ٹھہرائیں جو کسی امت کے لئے حلال نہیں تھیں۔ چنانچہ مرد کے لئے جائز ہوا کہ بحسب ضرورت چار عورت تک سے نکاح کر سکے۔ پھر اگر مرد