طرح استعمال کئے جانے کا طریقہ کار کیوں وضع کیا ہے؟ طلاق مرد دے اور دوبارہ رجوع کرنا چاہے تو عورت پہلے کسی دوسرے آدمی کے نکاح میں دی جائے۔ وہ دوسرا شخص اس عورت کے ساتھ جنسی عمل سے گزرے، پھر اس دوسرے شخص کی مرضی ہو۔ وہ طلاق دے تو عورت دوبارہ پہلے آدمی سے نکاح کر سکتی ہے؟ یعنی اس پورے معاملے میں استعمال عورت کا ہی ہوا، مرد کا کچھ بھی نہیں بگڑا۔ اس میں کیا رمز پوشیدہ ہے؟‘‘
جواب… اگر دیکھا جائے تو قادیانیوں کا یہ اعتراض بھی سراسر بدنیتی اور جہالت پر مبنی ہے۔ اس لئے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ مروجہ حلالہ کے لئے عارضی نکاح کی آنحضرتﷺ نے تعلیم وتلقین نہیں فرمائی۔ بلکہ اس کی قباحت وشناعت بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ محض پہلے شوہر کے لئے عورت کو حلال کر کے طلاق دینے والے حلالہ کنندہ اور ایسا حلالہ کرانے والے دونوں کو ملعون قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ’’عن ابن عباسؓ لعن رسول اﷲﷺ المحلل والمحلل لہ (مسند احمد ج۱ ص۴۵۰)‘‘ {اﷲتعالیٰ کے رسولﷺ نے لعنت فرمائی اور حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے پر۔}
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تین طلاق دینے کے بعد خاتون اپنے شوہر کے لئے حرام ہو جاتی ہے اور بلاتحلیل شرعی ان دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح اور ملاپ نہیں ہوسکتا تو یہ قرآن کریم کا مسئلہ ہے اور اﷲتعالیٰ نے اسے بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے۔
الف… ’’الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان (البقرہ:۲۲۹)‘‘ {طلاق رجعی ہے۔ دوبار تک اس کے بعد رکھ لینا موافق دستور کے یا چھوڑ دینا بھلی طرح سے۔}
ب… ’’فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ (البقرہ:۲۳۰)‘‘ {پھر اگر اس عورت کو طلاق دے یعنی تیسری بار، تو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت اس کے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا۔}
دراصل اﷲتعالیٰ میاں بیوی کے نکاح کے اس بندھن کے توڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایک ہنستا بستا گھرانا طلاق کی وجہ سے اجڑ جائے۔ اس لئے طلاق اگرچہ مباح ہے۔ مگر اﷲتعالیٰ کے ہاں مباح وجائز چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض وناپسندیدہ ہے۔ اس لئے اس بندھن کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے اﷲتعالیٰ نے تین طلاق کو آخری حد قرار دیا ہے۔ جب کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد نکاح ثانی کے بغیر مرد کے دوبارہ رجوع کرنے کے حق