والے ایسے دجال پیدا ہوئے ہیں۔ جنہوں نے قرآنی علوم کی تخریب سے امت محمدیہ میں فساد عظیم پیدا کر دیا ہے۔ سو خارجیت کے امام تو مرزاقادیانی ہیں۔ جنہوں نے سرسیدی ملت کی بناء پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی اور رفض کے امام حضرت احمد رضا صاحب بریلوی ہیں۔ جنہوں نے سنی اور حنفی بن کر سنیوں میں رفض اور شرک پھیلایا ہے اور روحانی چاند یعنی انسانی فطرتیں بھی اس زمانہ میں ایسی تاریک ہوگئی ہیں کہ کوئی برائی نہیں۔ جس کی گہری تاریکی میں اب دنیا مبتلا نہ ہو۔
ناظرین! غور فرمائیے کہ کیا امام مہدی کے زمانہ میں اندھیرا ہونا تھا یا اجالا اور کیا یہ نشان امام مہدی کے زمانہ میں ظاہر ہونا چاہئے تھا۔ ہر گز نہیں۔ یہ نشان بطور ارہاص ان کی آمد سے پہلے اس وقت ظاہر ہونا مناسب تھا۔ جب کہ دنیا پر گمراہی کی تاریکی چھا جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔ یہ نشان اب ہمیں یقین دلارہا ہے کہ امام مہدی کے ظاہر ہونے کا زمانہ اب بالکل قریب آگیا ہے۔ حدیث میں یہی معنی امام مہدی کا نشان ہونے کے ہیں۔ ہم آئینہ حق نما میں اوصاف ستہ ایمان بالغیب اقامت صلوٰۃ وغیرہ جو ابتدائے سورۂ بقر میں متقیوں کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ جو قرآنی ہدایت سے بہرہ یاب ہوسکتے ہیں۔ مرزائیوں اور بریلویوں میں ان کا فقدان ثابت کریں گے۔ اب ہم بطور نمونہ مشتے ازخردارے مرزاقادیانی کی قرآن مجید کی ترجمانی ناظرین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
تفاسیر مرزا
۱…مسئلہ روح کے متعلق ہماری اور مرزاقادیانی کی تحقیق
ناظرین! روح جو ایک لطیف اوربسیط شے ہے۔ اس کا تعلق راستا راست جسم کثیف سے نہیں ہوسکتا۔ اس کا حلول جسم لطیف میں ہوتا ہے نہ کہ اس جسم خاکی کا عنصری میں، جسم لطیف سے میری مراد روح نجاری ہے۔ جو اخلاط کے خلاصہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کتب طب میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔ اس جسم لطیف یعنی روح نجاری میں حس، حرکت، ارادہ اور ادراک کی قوتیں ہوتی ہیں۔ جب بدن انسانی میں یہ روح پیدا ہوچکی ہے۔ تو روح الٰہی کا فیضان اس میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: ’’فاذاسویتہ ونفخت فیہ من روحی (الحجر:۲۹)‘‘ روح کا ایک اور جز بھی ہے۔ جسے نفس ناطقہ کہتے ہیں اور وہ نفس کلیہ کا ایک حباب ہے۔ روح کے یہ تینوں جزومل کر ایک شئے واحد کا حکم رکھتے ہیں۔ روح الٰہی جو رحمن کی ایک شان ہے۔ مادہ میں حلول کرنے سے اپنی شان قدوسیت سے متنزل ہوکر رحمن سے ایک جداگانہ متدنس شے بن جاتی ہے۔ لیکن وہ قدسی