سراس میں محفوظ رہتا ہے۔ جب انسان روح کے اس جزو کی طرف متجرد ہوتا ہے تو اسے خداتعالیٰ کی وہ معرفت حاصل ہوتی ہے جو شرعی علوم کے مطابق ہے اور جب نفس ناطقہ کی طرف انسان متجرد ہوکر نفس کلیہ میں فانی ہوتا ہے تو وحدت الوجود کے حقائق کا اس پر انکشاف ہوتا ہے۔
غرضیکہ خداتعالیٰ کی معرفت ملائکہ علویہ سے ربط، علوم غیبیہ کے فیضان کا ذریعہ یہی روح الٰہی ہے۔ جس کا فیضان آسمان کی طرف سے ہوتا ہے۔ مادی روح جو جسم سے پیدا ہوتی ہے بدوں اس جزو کے عالم قدس سے ربط پیدا نہیں کر سکتی اور نہ ہی آریوں کی روح جو پرمیشر سے ایک الگ شے ہے۔ خدا کی معرفت حاصل کر سکتی ہے۔ خدا نے اپنی ذات کا ایک نمونہ انسان کی روح میں رکھا ہے جو اس کی شناخت کا ذریعہ ہے۔ کوئی مادی یا بیرونی مغائر شے اسے شناخت نہیں کر سکتی۔ مرزاقادیانی کی کتاب اسلام اور اس کی حقیقت اور چشمہ معرفت کو بغور پڑھو۔ وہ بکثرت تصریحات سے بیان کرتے ہیں کہ روح کا خمیر نطفے میں ہوتا ہے۔ جسم روح کی ماں ہے۔ وغیرہ وغیرہ! الفاظ جو صاف ظاہر کر رہے ہیں کہ مرزاقادیانی کے نزدیک صرف ایک ہی روح ہے جو جسم اور مادہ سے متولد ہوتی ہے اور اسی ایک روح کی مختلف حالتوں کا نام وہ نفس امارہ اور نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ رکھتے ہیں۔ حالانکہ امارگی روح بہیمی یعنی روح نجاری کا خاصہ ہے جس کا میلان سفل کی جانب ہے اور لوامگی اس حالت کا نام ہے۔ جب کہ روح علوی اور روح سفلی کے تقاضات میں باہمی کشتی ہوتی ہے اور مطمئنہ اس حالت کا نام ہے۔ جب کہ سفلی روح، روح علوی کے احکام کی پورے طور منقاد اور فرمانبردار ہو جاتی ہے اور پھر اسی کتاب اسلام اور اس کی حقیقت میں آیت ’’ثم انشأناہ خلقاً (المؤمنون:۲۳)‘‘ آخر کے یہ معنی کرتے ہیں کہ پھر ہم اس جسم کو ایک دوسری پیدائش میں لائے۔ یعنی اس سے ایک لطیف روح پیدا کردی۔ حالانکہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ پھر ہم نے انسان کی ایک دوسری پیدائش شروع کی۔ یعنی اس میں اپنی روح پھونک دی۔ حضرات ناظرین! غور کی جائے۔ ہے کہ جب مرزاقادیانی میں حجابات کی گہری تاریکی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وہ روح الٰہی چمکی ہی نہیں۔ جس کے ذریعے خدا کی معرفت اور عالم قدس سے علوم حاصل ہوتے ہیں۔ ان کی تحقیقات میں صرف ایک ہی مادی اور جسمانی روح آئی ہے تو پھر اس سے بڑھ کر کون سا بے وقوف شخص ہوسکتا ہے۔ جو مرزاقادیانی کو عارف خدا اور ملہم من الغیب اور نبی سمجھے۔ ہماری یہ مذکورہ تحقیق ان کے تمام دعاوی پر پانی پھیر دیتی ہے۔
۲… اسلام اور اس کی حقیقت ص۳۷،۳۸ ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں: ’’منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو اس کی فطرت کو لازم پڑی ہوئی ہیں۔ ایک برترہستی کی تلاش ہے جس کے لئے اندر