M
تفاسیر مرزا کے بطلان پر آسمانی شہادت رمضان میں کسوف وخسوف کا نشان
الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ من لانبی بعدہ !
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ناظرین! مرزاقادیانی کے دعویٰ مہدویت کے عین درمیان ماہ رمضان میں سورج اور چاند کو گرہن لگا۔ جسے ایک روایت کے رو سے مرزاقادیانی نے اپنے دعویٰ مہدویت کی سچائی کی حجت سمجھا اور وہ روایت احوال الآخرت میں مذکور ہے۔ خلاصہ مطلب اس کا یہ ہے کہ ماہ رمضان میں کسوف وخسوف کا نشان ظاہر ہوگا۔ جو امام مہدی کا نشان ہوگا۔
ناظرین! غور فرمائیں کہ کیا یہ نشان امام مہدی کے زمانہ میں ظاہر ہونا تھا یا ان سے ایک صدی پہلے؟ اور پھر یہ نشان جس موقعہ پر ظاہر ہوا وہ مرزاقادیانی کے کذب کو ظاہر کرتا ہے۔ یا ان کی صداقت کو؟۔ دیکھنا چاہئے کہ امام مہدی کے وجود سے اس کو ربط کیونکر ثابت ہوتا ہے؟۔ یہ مذکور نشان میرے نزدیک اس بات کی دلیل ہے کہ دو ایسے روحانی نیرّ ہیں۔ جن میں سے ایک بمنزلہ آفتاب کے ہے اور دوسرا بمنزلہ مہتاب کے اور دونوں ماہ رمضان سے کوئی خصوصی تعلق رکھتے ہیں۔ سو وہ نیرّ جو بمنزلہ آفتاب کے ہے۔ قرآن مجید ہے جس کا خصوصی تعلق ماہ رمضان سے یہ ہے کہ ماہ رمضان میں ملائکہ کے ذہنوں میں قرآن مجید کی روحانیت منعقد ہوئی تھی۔ جیسا کہ فرمایا: ’’شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن (البقرہ:۱۸۵)‘‘ ماہ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن اتار گیا اور وہ نیر جو بمنزلہ ماہتاب کے ہے وہ نور فطرت انسانی ہے۔ جیسے چاند سورج سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ ایسے ہی فطرت انسانی بھی اس روحانی آفتاب یعنی قرآن مجید سے منور ہوتی ہے اور ماہ رمضان سے اس روحانی چاند یعنی فطرت کا تعلق یہ ہے کہ نور فطرت ریاضات سے چمکتا ہے اور ماہ رمضان میں روزہ، تلاوت، قرآن، تراویح واعتکاف وغیرہ سے حجابات فطرت کے اٹھنے سے حسب استعداد فطرت میں درخشانی پیدا ہوتی ہے۔ جب یہ سمجھ لیا تو اب جاننا چاہئے کہ وہ رمضان میں یہ کسوف وخسوف کا نشان دنیا میں اس بات پر متنبہ کر رہا ہے کہ آج اس روحانی آفتاب یعنی قرآن مجید اور روحانی چاند یعنی انسانی فطرتوں پر ایسی تاریکی پڑ گئی ہے۔ جس کی نظیر رسالت محمدیہ کے زمانہ میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔ رفض اور خارجیت پھیلانے