پہلے لیتے ہیں رسمی عقیدے والے جھوٹ کو۔ مرزاقادیانی نے براہین احمدیہ کی فروخت کا جو اشتہار دیا تھا اس کی ان سطور کو جو میں ابھی پیش کروں گا رسمی عقیدہ نہیں تھا۔ بلکہ انتہائی تحقیق کے بعد براہین احمدیہ لکھی گئی۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’اس عاجز نے ایک کتاب متضمن ’’اثبات حقانیت قرآن وصداقت ودین اسلام‘‘ ایسی تالیف کی ہے۔ جس کے مطالعہ کے بعد طالب حق سے بجز قبولیت اسلام اور کچھ نہ بن پڑے۔‘‘
(اشتہار اپریل ۱۸۷۹ئ، تبلیغ رسالت حصہ اوّل ص۸، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۱)
’’کتاب براہین احمدیہ جس کو خداتعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم اور مامور ہوکر بغرض اصلاح اور تجدید دین تالیف کیا ہے۔ اوّل تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان وشوکت وقدرومنزلت اس سے ظاہر ہے۔ اگر کوئی مخالف اسلام ان دلائل کو توڑ دے تو اس کو دس ہزار روپے دینے کا اشتہار دیا ہوا ہے اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیاگیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں۔ اگر اس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے۔‘‘ (بحوالہ اشتہار نمبر۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳تا۲۵)
اب آپ اندازہ لگائیں کہ کیا اس کتاب کا اشتہار کسی رسمی عقیدہ کے سرسری عقیدہ کا ذکر کر رہا ہے یا الہامی رہنمائی سے انتہائی دقیق تحقیق کا دعویٰ ہے۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’مجدد نرے استخوان فروش نہیں ہوتے۔‘‘
بالکل صحیح کہا لیکن یہ تضاد بیانی اور کتاب بیچنے کے لئے جھوٹے دعوے ثابت کر رہے ہیں کہ مرزاقادیانی نہ مجدد تھے نہ الہام ہوتے تھے۔ صرف ایک دروغ گو کتاب اور ایمان فروش تھے۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس ثبوت کے شروع میں خاکسار نے جو حوالہ پیش کیا اس کے اس فقرے کو سامنے رکھیں۔
’’پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر رہا اور غافل رہا۔ خدا نے مجھے بڑی شدومد سے مسیح موعود قرار دیا ہے۔ مگر میں رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے اور اب اس حوالہ کو غور سے پڑھیں۔‘‘