مسیح موعود بیوی کرے گا نیز وہ صاحب اولاد ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں۔ کیونکہ عام طور پر ہرایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ اس میں کچھ خوبی نہیں۔ بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیش گوئی موجود ہے۔ گویا اس جگہ رسول اﷲﷺ ان سیاہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
مرزاقادیانی کی یہ تحریر ۱۸۹۶ء کی ہے۔ اس وقت تک مرزاقادیانی کی دو شادیاں ہوچکی تھیں اور ان میں سے اولاد بھی تھی۔ بلکہ پہلی بیوی (ماموں زاد حرمت بی بی عرف پھجے دی ماں) کو محمدی بیگم کے ساتھ شادی نہ کروانے کے جرم میں طلاق بھی دے چکے تھے اور اسی جرم میں سب سے بڑے بیٹے مرزاسلطان کو عاق بھی کر چکے تھے اور اپنی دوسری بہو عزت بی بی زوجہ فضل احمدکو بھی طلاق دلوا چکے تھے۔ اس کے بعد تاحیات مرزاقادیانی کی تیسری شادی محمدی بیگم یا کسی اور عورت سے نہیں ہوئی اور نہ ہی (شادی نہ ہونے کی وجہ سے) وہ خاص اولاد ہوئی۔ اس طرح مرزاقادیانی نے خود ثابت کر دیا کہ وہ رسول کریمﷺ کی پیش گوئی پر بھی پورے نہیں اترے۔ لہٰذا مرزاغلام احمد قادیانی مسیح موعود نہیں۔
ثبوت نمبر:۵
لیکن بات یہاں ہی نہیں رکتی۔ خاکسار آپ کی خدمت میں دو حوالے پیش کرتا ہے۔ جس سے مرزاقادیانی کی دروغ بیانی ظاہروباہر ہوجائے گی۔ جب مرزاقادیانی نے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ سرسید احمد خان سے اپنایا تو علماء اور دوسرے مسلمانوں نے اعتراض کیا کہ براہین احمدیہ میں جو کہ مرزاقادیانی نے الہامی رہنمائی کے تحت لکھی تھی۔ اس میں تو حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ لکھا ہے۔ مرزاقادیانی جواب دیتے ہیں کہ: ’’میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا۔ میں خود تعجب کرتا ہوں کہ میں نے باوجود کھلی کھلی وحی کے جو براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود بناتی تھی۔ کیونکر اس کتاب میں رسمی عقیدہ لکھ دیا۔ پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا۔ خدانے مجھے بڑی شدومد سے براہین احمدیہ میں مسیح موعود قرار دیا ہے۔ مگر میں رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے اوپر اصل حقیقت کھول دی جائے۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳)