ثبوت نمبر:۳
مرزاقادیانی نے اپنی طرف سے ہر قدم آہستہ آہستہ اور بڑا سوچ کر بڑھایا۔ لیکن یہی قدم ان کے خلاف ثبوت بھی بنتے گئے۔ مرزاقادیانی ایک جگہ حضرت شاہ نعمت اﷲ ولی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے اور اس کو اپنے حق میں بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے اس شعر کی تشریح میں لکھتے ہیں:
تاچہل سال اے برادر من
دورآں شہسوار مے بینم
’’یعنی اس روز سے جو وہ امام ملہم ہوکر اپنے تئیں ظاہر کرے گا۔ چالیس برس تک زندگی کرے گا۔ اب واضح رہے کہ یہ عاجز اپنی عمر کے چالیسویں برس میں دعوت حق کے لئے بالہام خاص مامور کیاگیا اور بشارت دی گئی کہ اسی برس تک یا اس کے قریب تیری عمر ہے۔ سو اس سے چالیس برس تک دعوت ثابت ہوتی ہے۔ جن میں سے دس برس کامل گزر بھی گئے۔‘‘
(نشان آسمانی ص۱۴، خزائن ج۴ ص۳۷۳)
یہ رسالہ ۱۸۹۲ء میں لکھاگیا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی ۱۸۹۲ء میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ چالیس سال کی عمر میں مرزاقادیانی ایک خاص الہام کے ذریعہ مامور ہوئے اور یہ رسالہ لکھنے تک پورے دس برس بطور مامور کے گزر چکے ہیں اور تیس سال ابھی باقی ہیں۔ یعنی ان کی زندگی کا سلسلہ مزید کم وبیش ۱۹۲۲ء تک مزید چلنا چاہئے تھا۔ لیکن ہوتا کیا ہے کہ مرزاقادیانی بجائے مزید تیس برس کی عمر پانے کے سولہ سال بھی مزید پورے نہیں کرتے اور مئی ۱۹۰۸ء میں فوت ہو جاتے ہیں اور جس پیش گوئی کا اپنے آپ کو مصداق بناکر اپنی صداقت کے لئے خود پیش کرتے ہیں وہ پیش گوئی بھی ان کی ذات پر پوری نہیں ہوئی اور ان کا اسی برس والا الہام بھی پورا نہ ہوا۔ اس لئے پہلی بات کہ مرزاقادیانی کا اپنی عمر کا الہام جھوٹا ہوا۔ دوسرے پیش گوئی کا مصداق بننے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ جس کا الہام جھوٹا ہو اور جو پیش گوئی اپنی صداقت کے لئے پیش کرتا ہے اور اس کا اہل ثابت نہیں ہوتا وہ مسیح موعود نہیں ہوسکتا۔ اس لئے مرزاقادیانی مسیح موعود نہیں۔
ثبوت نمبر:۴
اب مرزاقادیانی ایک حدیث شریف کو اپنے دعویٰ مسیح موعود کے ثبوت میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ: ’’اس پیش گوئی (محمدی بیگم کے ساتھ شادی کی۔ ناقل) کی تصدیق کے لئے جناب رسول اﷲﷺ نے بھی پہلے سے ایک پیش گوئی فرمائی ہے کہ: ’’یتزوج ویولدلہ‘‘ یعنی وہ