کی خبر احادیث میں ہی ہے اور جو نشانیاں احادیث شریفہ میں دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک بھی مرزاقادیانی پر فٹ نہیں بیٹھتی۔ اسی لئے ردی کی طرح پھینکی جارہی ہیں اور پھر اگر کوئی حدیث قرآن کے مطابق بھی ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کی (نام نہاد) وحی سے معارض ہے وہ بھی ردی ہوگئی۔ یعنی کہ مرزاقادیانی کی وحی نعوذ باﷲ قرآن مجید سے بھی بڑھ گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مواد مرزاقادیانی نے اپنے دعوؤں کی بنیاد کے طور پر پیش کیا ہے وہ بقول ان کے صحیح اور الہامی تائید کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق جائزہ لیں گے کہ آیا مرزاقادیانی اپنے بیان کئے ہوئے معیار پر اترتے ہیں یا نہیں؟ مرزاقادیانی نے ویسے تو بہت ہی باتیں کہیں ہیں۔ لیکن ہم آج نمونے کے طور پر صرف چند ہی باتیں پیش کریں گے کہ یہ خط زیادہ طوالت کی اجازت نہیں دیتا۔ یہاں ہم مسیح موعود کا دعویٰ لیتے ہیں۔ مرزاقادیانی اس مسیح موعود کا معیار بیان کرتے ہوئے اپنی صداقت کے ثبوت میں فرماتے ہیں۔
ثبوت نمبر:۱
مرزاقادیانی (اپنے) بطور ملہم ومجددلکھتے ہیں: ’’یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے۔ یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے۔ اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خداتعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور سڑکوں کو خس وخاشاک سے صاف کر دیں گے اور کج اور ناراست کا نام ونشان نہ رہے گا اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست ونابود کر دے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۵۰۵،۵۰۶، خزائن ج۱ ص۶۰۱،۶۰۲)
آیت کی اس الہامی تشریح سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:
۱… ’’حضرت مسیح ابن مریم نازل ہوں گے۔ لیکن یہاں غلام ابن چراغ بی بی دعویٰ کر رہے ہیں۔‘‘
۲… ’’دنیا ان کا جلال دیکھے گی یعنی حکومت۔ لیکن کیا دنیا نے مرزاغلام احمد کا جلال دیکھا؟ دنیا کو چھوڑو کیا ہندوستان نے ان کا جلال دیکھا؟ اس کو بھی چھوڑو۔ کیا ان کے صوبہ پنجاب نے بھی