سیدنا ومولانا حضرت محمد خاتم المرسلینﷺ کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۵۵)
اس کے بعد ۳؍فروری ۱۸۹۲ء کو علمائے کرام سے بحث کے دوران گواہان کے دستخطوں سے تحریری راضی نامہ کرتے ہیں۔ اس میں لکھتے ہیں:
۹… ’’تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ ’’فتح اسلام‘‘ و ’’توضیح المرام‘‘ و ’’ازالہ اوہام‘‘ میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے۔ یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کئے گئے ہیں۔ ورنہ حاشا وکلا مجھے نبوت حقیقی کا ہر گز دعویٰ نہیں۔ سو دوسرا پیرایہ یہ ہے کہ بجائے لفظ نبی کے محدث کا لفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اور اس کو یعنی لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال فرمالیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۱۳،۳۱۴)
اسی طرح کبھی اقرار، کبھی انکار، کبھی تاویلات کے ذریعہ قدم آگے بڑھاتے بڑھاتے آخر اس دعوے پر آپہنچے کہ:
۱۰… ’’سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
۱۱… ’’تو بھی ایک رسول ہے جیسا کہ فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا گیا تھا۔‘‘
(ملفوظات ج۸ ص۴۲۴)
۱۲… ’’شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵) لیکن ابھی بھی مالیخولیا مرزاقادیانی کو چین نہیں لینے دیتا کہ: ’’ابھی جہاں اور بھی ہیں‘‘ کے مصداق اب مزید آگے بڑھنے کے لئے کس ہوشیاری سے رسول کریمﷺ کو ان کے مقام سے ہٹا کر خود بیٹھنے کی تیاری ہے:
۱۳… ’’اب اسم محمد کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی