کی نسبت نبی اور رسول اور مرسل کے لفظ بکثرت موجود ہیں۔ سو یہ حقیقی معنوں پر محمول نہیں۔ مگر مجازی معنوں کی رو سے خدا کا اختیار ہے کہ کسی ملہم کو نبی کے لفظ سے یا رسول کے لفظ سے یاد کرے۔‘‘
(سراج منیر ص۳، خزائن ج۱۲ ص۵)
اب جب ہر طرف سے شور اٹھا تو کیا وضاحت پیش کی جارہی ہے:
۴… ’’نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدائے تعالیٰ کے حکم سے کیاگیا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۴۲۲، خزائن ج۳ ص۳۲۰)
۵… ’’محدث جو مرسلین میں سے امتی بھی ہوتا ہے اوناقص طور پر نبی بھی… وہ اگرچہ کامل طور پر امتی ہے۔ مگر ایک وجہ سے نبی بھی ہوتا ہے اور محدث کے لئے ضرور ہے کہ وہ کسی نبی کا مثیل ہو اور خداتعالیٰ کے نزدیک وہی نام پاوے جو اس نبی کا نام ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۶۹،۵۷۰، خزائن ج۳ ص۴۰۷)
۶… ’’یہ عاجز خداتعالیٰ کی طرف سے اس امت کے لئے محدث ہوکر آیا ہے… اور بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہوکر آیا ہے۔ انبیاء کی طرح اس پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں بآواز بلند ظاہر کرے اور اس سے انکار کرنے والاایک حد تک مستوجب سزا ٹھہرتا ہے۔‘‘
(توضیح المرام ص۱۹، خزائن ج۳ ص۶۰)۷… ’’مسیح موعود جو آنے والا ہے اس کی علامت یہ لکھی ہے کہ وہ نبی اﷲ ہوگا۔ یعنی خداتعالیٰ سے وحی پانے والا۔ لیکن اس جگہ نبوت تامہ کاملہ مراد نہیں… سو یہ نعمت خاص طور پر اس عاجز کو دی گئی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۰۰، خزائن ج۳ ص۴۷۸)
اب ہوتا کیا ہے ان بے سروپا دعوؤں کی وجہ سے مخالفت بے انتہاء بڑھ جاتی ہے۔ اس کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے لئے ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ’’ایک عاجز مسافر کا اشتہار‘‘ کے نام سے ایک اشتہار شائع کرتے ہیں:
۸… ’’میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائک اور لیلتہ القدر وغیرہ سے منکر۔ بلکہ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا