نہیں۔ کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہوچکا۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔ اب چاندکی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہوکر میں ہوں۔‘‘
(اربعین نمبر۴، خزائن ج۱۷ ص۴۴۵،۴۴۶)
اب ہوتا کیا ہے بندہ سوچتا ہے کہ شاید بزعم خود رسول کریمﷺ کا مقام تولے ہی چکے ہیں۔ نعوذ باﷲ! اب تو مرزاقادیانی یہاں رک جائیں گے مگر وہ مالیخولیا اور مراق ہی کیا جو رکنے دے۔ اب رسول کریمﷺ سے اپنا مقام کیسے بڑھایا جاتا ہے؟ فرماتے ہیں:
۱۴… ’’آسمان سے بہت سے تخت اترے پر میرا تخت سب سے اوپر بچایا گیا۔‘‘
(تذکرہ ص۳۳۹،۳۹۶،۶۴۳)
رسول کریمﷺ حسن صفائی کا نمونہ تھے اور یہ صاحب سلوٹوں بھرے کپڑے وپگڑی، واسکٹ کے بٹن کوٹ کے کاج میں، کوٹ کے بٹن قمیص کے کاجوں میں اور قمیص کے بٹن کہیں اور اٹکے ہوئے، واسکٹ اور کوٹ پر تیل کے داغ، اور جورابیں اس طرح پہنی ہوئی کہ ایڑی اوپر اور پنجہ آگے سے لٹکا ہوا۔ جوتے کا بایاں پاؤں دائیں میں اور دایاں پاؤں بائیں میں۔ ایڑی بٹھائی ہوئی اور جب چلے تو ٹھپ ٹھپ کی آواز آئے۔ وٹوانی کی مٹی کے ڈھیلے اور گڑ کی ڈلیاں ایک ہی جیب میں۔ (مزید تفصیل کے لئے ’’سیرت مہدی‘‘ مصنفہ مرزابشیر احمد جلد اوّل دیکھئے) اپنے ایمان سے کہو کہ کیا نبی کا حلیہ ایسا ہی ہوتا ہے؟ ایسا تو ایک نارمل انسان کا بھی حلیہ نہیں ہوتا۔ اس حلیہ اور جھوٹی قسموں کے بل پر یہ دعویٰ کہ سب رسول میرے کرتے میں ہیں۔ سوچو کس کے پیچھے لگے ہوئے ہو؟ یہ ایک نیا مذہب ہے جو اسلام پر ڈاکہ مار کر اسلام کے لباس میں پیش کیا جارہا ہے۔ اپنے ایمان سے کہو کہ جتنی بیعتوں کے دعوے ہر سال تمہارے خلیفہ صاحب کرتے ہیں اس کا ہزارواں حصہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا؟ ہر احمدی یہی سوچ رہا ہے کہ ہمارے شہر میں نہیں لیکن دوسرے شہر میں بڑی بیعتیں ہوئی ہیں۔ ہمارے ملک میں تو نہیں مگر دوسرے ملک میں ہوئی ہیں۔ جہاں تک تم سے ممکن ہے جائزہ تو لو۔ اپنے شہر میں دیکھو۔ دوسرے شہروں وملکوں میں اپنے سنجیدہ رشتہ داروں سے پوچھو تو ہر کوئی دوسرے شہر کی بات کرے گا اور یہی کہے گا۔ ’’نہیں یار تمہاری طرف اور دوسرے شہروں میں بڑا کام ہورہا ہے۔ لیکن ہمارے شہر میں لوگ سست ہیں۔‘‘ حیران نہ ہوں! جس جماعت کی بنیاد جھوٹے الہامات، جھوٹی قسموں، جھوٹی پیش گوئیوں اور مال وزر کی خواہش پر