ملاحظہ ہوں:’’ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۹۷)
اس طرح وقتی طور پر مخالفت ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن علماء حق کے خدشات صحیح نکلتے ہیں کہ ان صاحب (یعنی مرزاغلام احمد قادیانی) کا مالیخولیا ومراق جیسے جیسے ترقی کرے گا اسی طرح ان کے دعویٰ جات بھی بڑھیں گے۔ مرزاقادیانی کو مراق تھا یا نہیں؟ میرے خیال میں یہ حوالہ کافی ہے: ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے۔ بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوئم ص۳۴۰، بروایت۳۷۲)
اور مراق کیا چیز ہے یہ حوالہ میرے خیال میں کافی رہے گا: ’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا، مالیخولیا، مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردید کے لئے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ وبن سے اکھاڑ دیتی ہے۔‘‘ (مضمون ڈاکٹر شاہنواز قادیانی مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز قادیان ص۶،۷، بابت ماہ اگست ۱۹۴۶ئ)
اب دیکھئے کہ مرزاقادیانی کس طرح اپنے دعوؤں میں آگے بڑھتے بڑھتے نہ صرف رسول کریمﷺ کے مقام تک پہنچتے ہیں (نعوذ باﷲ) بلکہ ان کو پرے ہٹانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں:
۱… ’’میرا نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں۔ یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ نبی بھی ہو جائے… اور ان نشانوں کا نام معجزہ رکھنا نہیں چاہتا۔ بلکہ ہمارے مذہب کی رو سے ان نشانوں کا نام کرامت ہے جو اﷲ ورسول کی پیروی سے دئیے جاتے ہیں۔‘‘ (جنگ مقدس ص۷۴، خزائن ج۶ ص۱۵۶)
۲… ’’یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعویٰ میں نبی کا نام سن کر دھوکا کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانے میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے۔ لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۴)
۳… ’’یہ سچ ہے کہ وہ الہام جو خدا نے اس بندے پر نازل فرمایا۔ اس میں اس بندے کی