کے اس بدترین استحصال کے خلاف بھی آواز اٹھائی؟
جب کہ اسلام نے میاں بیوی کے نکاح کے بندھن کو زندگی بھر کا بندھن قرار دیا ہے۔ پھر چونکہ اندیشہ تھا کہ عورت اپنی فطری کمزوری، جلد بازی سے اس بندھن کو توڑ کر در، در کی ٹھوکریں نہ کھائے۔ اس لئے فرمایا کہ اس معاہدہ نکاح کے فسخ کا حق مرد کے پاس ہی رہنا چاہئے۔ چنانچہ اس عقد کو باقی رکھنے کے لئے خصوصی ہدایات دی گئیں اور فرمایا گیا کہ اگر خدانخواستہ خواتین کی جانب سے ایسی کسی کمی کوتاہی کا مرحلہ درپیش ہو تو مردوں کو اس عقد کے توڑنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ دونوں جانب کے بڑے بوڑھوں اور جانبین کے اکابر وبزرگوں کو بیچ میں ڈال کر اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔ چنانچہ فرمایا گیا: ’’والتی تخافون نشوزہن فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن فان اطعنکم فلا تبغوا علیہن سبیلاً ان اﷲ کان علیاً کبیراً وان خفتم شقاق بینہما فابعثوا حکماً من اہلہ وحکما من اہلہا ان یریدا اصلاحاً یوفق اﷲ بینہما ان اﷲ کان علیماً خبیراً (النسائ:۳۴،۳۵)‘‘ {اور جن کی بدخوئی کا ڈر ہو تم کو، تو ان کو سمجھاؤ اور جدا کرو سونے میں اور مارو۔ پھر اگر کہا مانیں تمہارا تو مت تلاش کرو ان پر راہ الزام کی، بے شک اﷲ ہے سب سے اوپر بڑا اور اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں آپس میں ضد رکھتے ہیں تو کھڑا کرو ایک منصف مرد والوں میں سے اور ایک مصنف عورت والوں میں سے، اگر یہ دونوں چاہیں کہ صلح کرادیں تو اﷲ موافقت کر دے گا ان دونوں میں بے شک اﷲ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔}
ہاں اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ عورت کا اس مرد کے ساتھ گزارا نہ ہوسکے یا شوہر ظلم وتشدد پر اتر آئے تو ایسی صورت میں عورت کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی عدالت یا اپنے خاندان کے بزرگوں کے ذریعہ اس ظالم سے گلو خلاصی کرا سکتی ہے۔
اس ساری صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس میں عورت کی عزت، عصمت اور عظمت کے تحفظ کو یقینی بنانا مقصود ہے۔ کیونکہ نکاح کے بعد مرد کا تو کچھ نہیں جاتا۔ البتہ عورت کے لئے کئی قسم کی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ مثلاً خود اس کا اپنا بے سہارا ہو جانا، اس کے بچوں کی پرورش، تعلیم، تربیت، ان کے مستقبل اور اس کے خاندان کی عزت وناموس کا معاملہ وغیرہ۔ ایسے بے شمار مسائل، اس بندھن کے ٹوٹنے سے کھڑے ہوسکتے ہیں اور ان تمام مسائل سے براہ راست عورت ہی دوچار ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا گیا کہ عورت کو اس بندھن کے توڑنے