۲… ’’کیا تو نہیں جانتا کہ فضل اور رحم کرنے والے رب نے ہمارے نبیﷺ کا نام بغیر کسی استثناء کے خاتم الانبیاء رکھا اور آنحضرتﷺ نے ’’لا نبی بعدی‘‘ سے طالبوں کے لئے بیان واضح سے اس کی تفسیر کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور اگر ہم آنحضرتﷺ کے بعد کسی نبی کے ظہور کو جائز قرار دیں تو ہم وحی نبوت کے دروازہ کے بند ہونے کے بعد اس کا کھلنا جائز قرار دیں گے۔ جو بالبداہت باطل ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں پر مخفی نہیں اور ہمارے رسول کے بعد کوئی نبی کیسے آسکتا ہے۔ جب کہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہو گئی ہے اور اﷲ نے آپ کے ذریعہ نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۲۰، خزائن ج۷ ص۲۰۰)
۳… ’’قرآن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔ خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم ص۷۶۱، خزائن ج۳ ص۵۱۱)
۴… ’’حسب تصریح قرآن کریم، رسول اسی کو کہتے ہیں جس نے احکام وعقائد دین جبرائیل کے ذریعہ حاصل کئے ہوں۔ لیکن وحی نبوت پر تو تیرہ سو برس سے مہر لگ گئی ہے۔ کیا یہ مہر اس وقت ٹوٹ جائے گی؟‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم ص۵۳۵، خزائن ج۳ ص۳۸۷)
ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ ہے کہ وہ مجدد ہیں اور قرآن ان کو خدا نے سکھایا ہے اور ہر قسم کے دلائل سے، تحقیق سے اثبات صداقت اسلام پیش کرنے کے دعویدار ہیں اور کوئی لفظ خدا کی مرضی کے بغیر نہیں نکالتے اور تجدید دین کے لئے خدا ان کو ایک لمحہ بھی غلطی پر نہیں رہنے دیتا۔ اس حیثیت میں وہ ختم نبوت کا انہی معنوں میں اقرار کر رہے ہیں جن معنوں میں رسول کریمﷺ، صحابہؓ، اور آئمہ دین ومسلمان تیرہ صدیوں سے ایمان رکھتے تھے اور اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے قسم کے معنی کو کفر قرار دے رہے ہیں۔ مرزاقادیانی کے بیٹے وخلیفہ ثانی بھی ہمارے اس یقین کی تصدیق کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’الغرض حقیقت الوحی کے حوالہ نے واضح کر دیا کہ نبوت اور حیات مسیح کے متعلق آپ کا (مرزاغلام احمد قادیانی۔ ناقل) عقیدہ پہلے عام مسلمانوں کی طرح تھا۔ مگر پھر دونوں میں تبدیلی فرمائی۔‘‘
(بحوالہ الفضل مورخہ ۶؍ستمبر ۱۹۴۱ئ، خطبہ جمعہ، کالم۳)
اب ہوتا کیا ہے کہ کچھ علمائے حق نے خدا کی دی ہوئی فراست سے اندازہ لگایا کہ ان صاحب کا ارادہ نبی بننے کا ہے اور انہوں نے جب اعتراض اٹھائے تو مرزاقادیانی کے جوابات