سب مسلمانوں میں مسیح کے زندہ ہونے پر ایمان رکھا جاتا ہے اور بڑے بڑے بزرگ اس عقیدہ پر فوت ہوئے… حضرت مسیح موعود (مرزاغلام احمد قادیانی) سے پہلے جس قدر اولیاء اور صلحاء گزرے ہیں ان میں ایک بڑا گروہ عام عقیدہ کے ماتحت حضرت مسیح علیہ السلام کو زندہ خیال کرتا تھا۔‘‘ (بحوالہ حقیقت النبوۃ ص۱۴۲، مصنفہ مرزابشیر الدین محمود احمد)
مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے پسر موعود کے ان حوالوں کو جواب تک میں نے پیش کئے ہیں، سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں۔
۱… براہین احمدیہ خدا کے کھولے ہوئے اسرار وحقائق کے تحت لکھی گئی۔ جس کا ظاہراً وباطناً خدا خود ذمہ دار ہے اور ہر لکھی ہوئی بات اتمام حجت ہے۔
۲… مرزاقادیانی نے اس میں حیات مسیح بن مریم کے بارہ میں اپنے عقیدہ کا اظہار، صحابۂ کبارؓ، اولیاء کرام، صلحائے کرام اور عام مسلمانوں کے تیرہ سو سالوں کے عقیدہ کے مطابق کیا ہے۔
اب ہوتا کیا ہے کہ مرزاقادیانی ۱۲سال تک اس عقیدہ کی اشاعت کرتے ہیں۔ پھر اپنی کتاب ’’توضیح مرام‘‘ میں ۹۲۔۱۸۹۱ء میں دعویٰ کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ان پر بارش کی طرح الہامات کر کے بتایا ہے کہ قرآن کریم میں تین جگہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے اور اگلی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں یہ تیس جگہ بن گئیں۔ کس طرح دعوؤں میں ترقی کرتے ہیں۔ ان کے ذکر کا یہ موقع ومحل نہیں۔ اب جو انتہائی اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں ان پر بعد میں آتا ہوں۔ اس سے قبل ایک دو نہایت اہم حوالہ جات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’ہم ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ آسمان پر جانا محض گپ ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۰۰، خزائن ج۲۱ ص۲۶۲)
اور دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’فمن سوء الادب ان یقال ان عیسیٰ مامات ان ہوالا شرک عظیم یأکل الحسنات سو من جملہ سوئے ادب کے ہے کہ یہ کہا جائے کہ عیسیٰ مرے نہیں۔ یہ تو نرا شرک عظیم ہے جو نیکیوں کو کھا جاتا ہے۔‘‘ (الاستفتاء ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۶۶۰)
اب میرے دل میں سوال یہ پیدا ہوتے ہیں:
۱… مرزاقادیانی نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف میں جو کہ خداتعالیٰ نے اپنی حفاظت اور اہتمام میں نہایت تحقیق اور تدقیق کے ساتھ مؤلف کو ملہم، مجدد اور مامور کے درجہ پر فائز کر کے لکھوائی، اس میں الہاماً ایسا متفقہ عقیدہ بابت حیات عیسیٰ لکھوایا جو کہ ۱۳صدیوں سے امت کا، اولیاء کا، صلحاء کا عقیدہ تھا۔ کیا وہ عقیدہ صحیح نہیں تھا؟