ومجدد کے لکھوائی ہے اور مؤلف کو اس کتاب کی صحت اور صداقت پر اتنا یقین ہے کہ اس نے ان دلائل کے توڑ کرنے والے کے لئے دس ہزار روپے کا انعام بھی رکھ دیا ہے۔ اس مضبوط کتاب پر رسول کریمﷺ نے بھی خواب میں آکر خوشی اور رضامندی کا اظہار کیا ہے اور اس کتاب میں مصنف نے خدا کے سکھائے ہوئے اسرار وحقائق کے نتیجے میں حیات مسیح کا اقرار کیا ہے۔ لیکن آج جماعت وفات مسیح کی مؤید ہے۔ فاضل مصنف فرماتے ہیں: ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے کہ وہ غلبہ حضرت مسیح کے ذریعے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۴۹۹،۵۰۰، خزائن ج۱ ص۵۹۳،۵۹۴)
’’حضرت مسیح پیش گوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے۔‘‘
اس میں واضح طور پر مرزاغلام احمد قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا میں آنے کا اقرار کر رہے ہیں۔ حوالے اور بھی ہیں مگر اس جگہ مقصد بحث نہیں بلکہ حق کی طرف بلانا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ کیا میں مطلب صحیح سمجھا ہوں؟ مرزاقادیانی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں: ’’میں نے براہین احمدیہ میں جو کچھ مسیح بن مریم کے دوبارہ دنیا میں آنے کا ذکر لکھا ہے۔ وہ ذکر صرف ایک مشہور عقیدہ کے لحاظ سے جس کی طرف آج کل ہمارے مسلمان بھائیوں کے خیالات جھکے ہوئے ہیں۔ سو اسی ظاہری اعتقاد سے میں نے لکھ دیا تھا۔ لیکن جب مسیح آئے گا تو اس کی ظاہری اور جسمانی طور پر خلافت ہوگی۔ یہ بیان جو براہین احمدیہ میں درج ہوچکا ہے۔ صرف اس سرسری پیروی کی وجہ سے ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۹۸، خزائن ج۳ ص۱۹۶)
یعنی یہ اقتباس تصدیق کرتا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے بھی براہین احمدیہ میں اپنے عقیدہ کے طور پر مسلمانوں کا ۱۳۰۰سالہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور دوبارہ تشریف لائیں گے کو بطور آثار مرویہ نبی آخرالزمانﷺ کے درج کیا ہے اور کیا یہ عقیدہ واقعی متفقہ عقیدہ تھا اس بارے میں میں آپ کے پیشرو یعنی کہ خلیفہ ثانی، جو کہ پسر موعود بھی کہلاتے ہیں مرزابشیرالدین محمود احمد صاحب کا ایک حوالہ پیش کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں: ’’پچھلی صدیوں کے