داریوں کی طرف متوجہ فرماکر فرمایا: ’’ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف وللرجال علیہن درجۃ (البقرہ:۲۲۸)‘‘ یعنی ان خواتین کے حقوق بھی اسی طرح ہیں۔ جس طرح ان پر مردوں کے حقوق ہیں۔ معروف طریقے کے ساتھ، اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجے کی فضیلت حاصل ہے۔
اﷲتعالیٰ نے مرد کو ہنگامہ دنیا وبازار، تجارت، معاش، قیادت وسیادت حکومت وامامت کا ذمہ دار بنایا تو خواتین کو گھر میں رہتے ہوئے انسانیت سازی کا کارخانہ حوالہ کیا اور فرمایا گیا: ’’اذا صلت خمسہا وصامت شہرہا وأحصنت فرجہا وأطاعت بعلہا فلتدخل من أی أبواب الجنۃ شاء ت (مشکوٰۃ ص۲۸۱)‘‘
یعنی عورت گھر میں رہ کر اپنے اﷲ، رسول کے حقوق بجالائے، پانچ وقت کی نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہو جائے۔
مگر یورپ کے مستشرقین کو عورت کا یہ اعزاز، عزت وعظمت اور سکون واطمینان برداشت نہیں۔ انہوں نے عورت کے حقوق کی پاسداری اور علم برداری کی آڑ میں اس کو گھر سے نکال کر ہنگامۂ بازار میں لاکھڑا کیا۔ انہوں نے اس بے چاری سے اپنی فطری خواہشات تو پوری کیں۔ مگر اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری سے جان چھڑانے کے لئے اسے بھی بازار وکارخانے کی راہ دکھائی۔
چنانچہ انہوں نے اپنے انہی مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر عورت کو یہ راہ سجھائی کہ جس طرح ہمارا کسی عورت سے دل بھر جاتا ہے اور ہم اسے ٹھوکر مار کر گھر سے نکال دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر عورت کا دل بھر جائے تو وہ بھی اپنی مرضی سے کسی دوسرے مرد کی راہ دیکھے۔ دیکھا جائے تو اس خیرخواہی کے پیچھے بھی عورت دشمنی کا یہ راز پوشیدہ ہے کہ کل کلاں عورت کے اس دھتکارے جانے پر ہمیں کوئی مورد الزام نہ ٹھہرائے اور ہم نت نئی خاتون کو اپنی خواہش اور ہوس کا نشانہ بناتے پھریں۔ اس سے اپنی جنسی ضرورت پوری کریں اور اسے چلتا کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپ وامریکہ میں زنا کو نکاح پر ترجیح دی جاتی ہے۔ کیونکہ نکاح کرنے کی صورت میں عورت، مرد کی جائیداد کی حقدار ہو جاتی ہے۔ جب کہ زنا کاری کی غرض سے ایک ساتھ رہنے میں مرد پر عورت کے کوئی حقوق نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اس کی جائیداد میں حصہ دار ہوتی ہے۔ لہٰذا مرد جب چاہے اس کو دھکا دے کر فارغ کر سکتا ہے۔ کیا کبھی عورت کے حقوق کی دہائی دینے والوں نے عورت