) اب یہ طریقے اورچالبازیاں کہ کبھی اقرار نبوت،کبھی انکار نبوت وغیرہ وغیرہ کو ہم دیکھیں توکیا مرزاقادیانی اپنے ہی قول کے مصداق ثابت نہیںہوتے کہ ’’دجال نبوت کادعویٰ کرے گا۔‘‘
٭… پھر مرزاقادیانی دجال کے بارے میں لکھتے ہیں:’’اورنیز خدائی کا دعویٰ بھی اس سے ظہور میں آئے گا۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۲۰،خزائن ج۶ص۳۱۶) نبوت کادعویٰ توہم نے اوپر ثابت کردیا۔ کیا مرزاقادیانی نے بھی خدائی کا دعویٰ کیا؟بالکل کیا! مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ نبی کاکشف اورخواب ایک حقیقت ہوتا ہے اوردوسری جگہ لکھتے ہیں کہ :’’الہام اورکشف کی عزت اورپایہ عالیہ قرآن شریف سے ثابت ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اول ص۱۵۳،خزائن ج۳ص۱۷۸) اس کے بعدہم مرزاقادیانی کا دعویٰ خدائی مختصر لکھتے ہیں ۔تفصیل جاننے کے لئے ان کی کتاب دیکھ لیں۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اوریقین کیا کہ وہی ہوں۔ اورمیں نے اپنے جسم کو دیکھا تو میرے اعضاء اس کے اعضاء میری آنکھ اس کی آنکھ اورمیرے کان اس کے کان اورمیری زبان اس کی زبان بن گئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس کی قوت مجھ میں جوش مارتی اوراس کی الوہیت مجھ میں موجزن ہے۔ میں اس وقت یقین کرتا تھا کہ میرے اعضاء میرے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اعضاء ہیں۔ اوراس حالت میں میں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیانظام اورنیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو میں نے پہلے تو آسمان اورزمین کواجمالی صورت میں پیداکیا جس میں کوئی ترتیب اورتفریق نہ تھی۔ پھر میں نے منشاء حق کے موافق اس کی ترتیب و تفریق کی اورمیں دیکھتا تھا کہ میں اس کے خلق پر قادر ہوں۔ پھر میں نے کہاکہ اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے۔پھر میری حالت کشف سے الہام کی طرف منتقل ہوگئی اورمیر ی زبان پرجاری ہوا۔ اردت ان استخلف فخلقت آدم، انا خلقنا الانسان فی احسن تقویم ۔(کتاب البریہ ص۷۸،۷۹،خزائن ج۱۳ص۱۰۳تا۱۰۵) اب کیا اس کے بعد مرزاقادیانی کے خدائی کے دعویٰ میں کوئی شک رہ جاتا ہے؟ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے دجال کی جو نشانی لکھی تھی: ’’وہ نیزخدائی کابھی دعویدار ہوگا۔‘‘اپنے ہاتھوں سے اس پر عمل کرکے اس کی تصدیق کر دی کہ وہ خود ہی دجال بھی ہو سکتے ہیں۔٭… مرزاقادیانی نے دجال کی ایک اوربڑی نشانی لکھی ہے۔لغت عرب کی رو سے دجال کی مختلف نشانیاں بیان کرتے ہوئے ایک علامت یہ بھی لکھتے ہیں:’’لغت عرب کی رو سے دجال اس گروہ کو کہتے ہیں اوروہ گروہ جو طرح طرح کی کلوں اورصنعتوں اورخدائی کاموں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘ (کتاب البریہ ص۲۲۶،خزائن ج۱۳ص۲۴۴حاشیہ)