جائے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام، حصہ دوئم ص۵۸۶،خزائن ج۳ص۳۱۶) اور دوسری جگہ فرماتے ہیں :’’میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کودائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘ (آسمانی فیصلہ ص۳،خزائن ج۴ص۳۱۳) اوراس کے بعد بطور مسیح موعود اورحتمی دعویٰ نبوت سے ۲۔۳ سال قبل ایک اشتہار میں فرماتے ہیں:’’ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۹۷،مورخہ ۲۴جنوری ۱۸۹۷ئ)
اب اسی شدومد سے دعویٰ نبوت کر رہے ہیں۔ پہلا دعویٰ جو میں دے رہا ہوں اس میں ایک بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزاقادیانی ۱۸۹۷ء تک مدعی نبوت پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ مگر جب نبی اوررسول کا دعویٰ کرتے ہیں تواپنے الہام مندرجہ براہین احمدیہ جو کہ ۱۸۸۲ء میں چھپی ہے، کاحوالہ دیتے ہیں۔ کیا یہ دجل نہیں ہے؟ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:’’خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے ایسے الفاظ رسول اورمرسل اورنبی کے موجود ہیں… اوربراہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس سال ہوئے، یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں۔ (دیکھو ص۴۹۸،براہین احمدیہ)
اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کرکے پکارا گیا ہے۔‘‘(ایک غلطی کازالہ ص۲،خزائن ج۱۸ ص۲۰۶) اس کے بعد دوسری جگہ لکھتے ہیں:’’ہاں یہ سچ ہے کہ آنے والے مسیح کو نبی بھی کہا گیا ہے اورامتی بھی ،اس لئے خداتعالیٰ نے براہین احمدیہ میں بھی اس عاجز کانام امتی بھی رکھا اورنبی بھی۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ ۲ص۵۳۳،خزائن ج۳ص۳۸۶)
اس حوالہ سے کیاظاہر ہوتا ہے کہ دس سال تک ان کو اپنے نبی ہونے کا پتہ نہیں تھا۔ اب پتہ چلا ہے تواقرار کر رہے ہیں۔لیکن پانچ سال بعد پھر پتہ چلتا ہے کہ ان کو غلطی لگی تھی۔اس لئے پانچ سال کے بعدمدعی نبوت پر لعنت بھیج دی۔لیکن پھر ۱۹۰۱ء میں خیال آیا کہ یہ تو سب کچھ غلط تھا۔میں نبی اوررسول ہوں۔ اب لوگوں کو الجھائو میں ڈالنے کے لئے ظلی ، بروزی، عشق رسول کی وجہ سے نبوت کادعویٰ ہے اورکہا جارہا تھا کہ یہ شرعی نبوت نہیںاورمرزاقادیانی کوئی نئی شریعت نہیں لائے اس وجہ سے خاتم النبین کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن ابھی جو حوالہ پیش کروں گا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کادعویٰ ایسا نبی ہونے کاتھا جو نئی شریعت لایا ہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:’’شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امراورانہی بیان کئے اوراپنی امت کیلئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اورنہی بھی۔(اربعین نمبر ۴ص۶، خزائن ج۱۷ص۴۳۵)