رہے!مرزا قادیانی ہمیشہ کے سردرد، دوران سر اورتشنج دل کے مریض تھے۔بسا اوقات دن میں سو سو بار پیشاب آتا تھا۔اس کامطلب تویہ ہے کہ عام طور پر ستر بار تو پیشاب آتا ہی ہوگا اوراکثراسہال کا بھی شکار رہتے تھے۔یعنی اکثر لوٹا ہاتھ میں ہوتاتھا۔اس کا مطلب ہے کہ اپنی کتابوں میں جو ’’نادر تاویلات‘‘ پیش کیں ان کا الہام یا خیال بھی ٹائلٹ میں ہی آیاہوگا کیونکہ زیادہ وقت تووہیں گزرتا تھا اورزیادتی پیشاب کی وجہ سے ضعف اورکمزوری اوردوسری بیماریاں بھی اپنااثر دکھارہی تھیں۔ دایاں بازو کام نہیں کرتاتھا۔ نماز کے وقت دایاں ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے سہارادیتے تھے۔ اس سے پانی تک نہیں پی سکتے تھے۔دورہ پڑتاتو ٹانگیں باندھنی پڑ جاتی تھیں۔ چیخیں مارتے تھے۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ ان کی گواہی نبیوں نے دی ہے۔قرآن نے دی ہے اورمرزا قادیانی کا دعویٰ عین محمدﷺہونے کا ہے۔اب آپ خود سوچیں کہ اللہ کو اتنی کون سی مجبوری تھی کہ ایسی عظیم الشان شخصیت اورکام کے لئے ایک بیمار اورعارضی نہیں بلکہ مستقل بیمار شخص اورپھر بیماریاں بھی کونسی دق، ہسٹریا،مالیخولیا، مراق،دوران سر،ہمیشہ کا سردرد،بیکار بازو، کثرت بول ، کثرت اسہال ، نامردی ،ذیابیطیس کاحامل ہی اس رتبہ پربٹھانا تھا؟؟اوپر سے لباس بھی میلاکچیلا اورپہننے کاطریقہ مضحکہ خیز؟کیا خاتم الانبیاء ،ختم الرسل، فخر انسانیت، رحمۃ اللعالمین ، شاہ لولاک، شفیع روز محشر ﷺکی بعثت ثانیہ یا محمدﷺثانی کے طور پرا یسے شخص کو ہی بھیجنا تھا جو اپنے اہل وعیال کے حقوق ہی نہیں ادا کرتاتھا۔بلکہ اپنی زیادتی کو بھی اپنا ہی صبر کہتاتھا۔جس کو لوٹے اورلیٹرین سے ہی فرصت نہیں تھی۔ جو بے پیندے لوٹے کی طرح ہر بات میں اپناموقف بدل لیتاتھا؟
آخر میں انتہائی اہم سوال
مرزاقادیانی فرماتے ہیں:’’بعض کاملین اس طرح پر دوبارہ دنیا میں آجاتے ہیں کہ ان کی روحانیت کسی اورپر تجلی کرتی ہے اوراس وجہ سے وہ دوسرا شخص گویاپہلا شخص ہی ہوجاتاہے۔ ہندوئوں میںایساہی اصول ہے۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۲۵، خزائن ج۲۱ص۲۹۱) اورمرزا قادیانی کادعویٰ ہے وہ (نعوذ باللہ) محمدثانیﷺہیں اورکس طریق سے ہیں اوریہ عقیدہ کہاں سے اورکون سے مذہب سے لیا گیاہے؟ یہ تو اوپر والی تحریر میں بتادیا۔اب اسی عقیدہ پر مرزاقادیانی کی ایک اور تحریر سے مرزاقادیانی کا خیال کچھ واضح ہوجاتا ہے۔مرزاقادیانی لکھتے ہیں:’’ یوں تو آر یہ لوگ کہتے ہیں کہ تنا سخ ضرور سچ ہے(صرف آر یہ ہی نہیں آپ بھی کہہ رہے ہیں۔ناقل) اورایسا ہمیشہ کے لئے واجب الوقوع ہے کہ مکتی کے بعد بھی اس سے پیچھا نہیں چھوٹتا لیکن بوجہ نادانی انہیں خیال