یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اورشبانہ روزتصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض ایسی عصبی علامات پیداہوجایا کرتی تھیں جو ہسٹریا کے مریضوں میں عموماًدیکھی جاتی ہیں۔ مثلاًکام کرتے کرتے یکدم ضعف ہوجانا،چکروں کا آنا،ہاتھ پائوں کا سرد ہوجانا،گھبراہٹ کادورہ ہوجانایا ایسا معلوم ہونا کہ ابھی دم نکلتا ہے یاکسی تنگ جگہ یا بعض اوقات زیادہ آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشان ہونے لگناوغیرہ ذالک۔ یہ اعصاب کی ذکاوت حس یا تکان کی علامات ہیں اورہسٹریا کے مریضوں کو بھی ہوتی ہیںاورانہی معنوںمیں حضرت صاحب کو ہسٹریا یا مراق بھی تھا۔
(سیرت المہدی ج دوئم،روایت نمبر۳۷۲،ص۳۴۰از مرزا بشیراحمد ایم اے)
اگر ہم مرزاقادیانی کے بیٹے کی اس تشریح کو مان لیں توپھر بھی سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ آدمیوں میں گھر کربیٹھنے سے دل پریشان ہوجاتاہے تو وہ دل کی پریشانی سنبھالے گا یا رہنمائی کرے گا۔جس کے اعصاب اتنے نازک ہوں کہ ذراذراسی بات پرمنتشرہوجاتے ہوں۔وہ شخص اپنے اعصاب کو کنٹرول کرنے سے فرصت پائے گا تولوگوں کو بتاسکے گا کہ انہوں نے اپنی زندگیاں کیسے کنٹرول کرنی ہیں؟جوشخص دل کی پریشانی اورذکاوت حس کی وجہ سے ہسٹریا کا شکار ہوجاتا ہو تولوگ اس کو سنبھالنے میں لگے ہوں گے یا وہ لوگوں کو؟وہ کیسے لوگوں کو سنبھال کر صحیح راستہ پر لے کرچلنے کے قابل ہوگاجوخود اکثر چیخیں مار کر نماز میں گر جاتا ہوااورلوگ اس کی ٹانگیں باندھ رہے ہوں۔ایسا شخص نبی کیسے ہو سکتا ہے؟میری ان باتوں کاثبوت سیرت المہدی سے مل جائے گا۔نبی کو تواللہ بھیجتا ہے آدمیوں کے لئے ہے اورجہاں بھی کوئی مدعی نبوت (جھوٹا یاسچا) موجود ہوگا لوگ اکٹھے ہوں گے۔کیا اللہ نے مرزاقادیانی کو پریشان ہونے،گھبرانے اوردورہ پڑنے کے لئے نبی بنایاتھا؟یاجم غفیر کی ہدایت کے لئے؟واقعات توکئی ہیں لیکن جو سوال میں نے اٹھائے ہیں۔ان کی تصدیق یہ واقعہ بھی کرتاہے:’’مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلی مرتبہ دوران سر اورہسٹریا کا دورہ بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہواتھا۔…اس کے کچھ عرصہ بعد ایک دفعہ نماز کے لئے باہرگئے۔…تھوڑی دیر بعد شیخ حامد علی نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ جلدی سے پانی کی ایک گاگر گرم کردو۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں سمجھ گئی کہ حضرت( مرزاقادیانی )کی طبیعت خراب ہوگئی ہوگی۔ چنانچہ میں نے کسی خادمہ سے کہا کہ اس سے پوچھو میاں کی طبیعت کا کیا حال ہے؟شیخ حامد علی نے کہا کچھ خراب ہوگئی ہے۔ میں پردہ کراکر مسجد میں چلی گئی۔آپ لیٹے ہوئے تھے۔جب میں پاس گئی تو فرمایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہو گئی