سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں،وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔‘‘(اربعین نمبر۴ ص۴،خزائن ج۱۷ص۴۷۱)اگرچوبیس گھنٹے پر سو بار کو تقسیم کیا جائے ،جس میں نہ نیند اورنہ کوئی آرام ، یا کوئی اورکام ہوتو تقریباًہر ساڑھے چودہ منٹ کے بعد پیشاب،اگر ٹوائلٹ میں جانے،شلوار کھول کر کپڑے سمیٹ کر بیٹھنے، پیشاب کرنے،استنجا کرنے،شلوار باندھنے،باہر آکر وضو کرنے یا کم از کم ہاتھ دھونے میں اگر ہم ساڑھے چار منٹ گن لیں تو دس منٹ کے بعد دوبارہ پیشاب کے لئے ٹوائلٹ میں(کیونکہ سیرت المہدی میں لکھا ہے کہ مرزاقادیانی ٹائلٹ سے باہر آکر فوراًوضو کرتے تھے)؟لیکن اگر ہم چھ گھنٹے آرام کے،ایک گھنٹہ عبادت کے لئے(ویسے ہونا زیادہ چاہئے، لیکن ازراہ احتیاط)اورایک گھنٹہ کھانے پینے کے لئے نکالیں تو کل بنے آٹھ گھنٹے،اس طرح سارے دن میں بچے ۱۶گھنٹے،اب اگر سولہ گھنٹوں پرتقسیم کریں تو ہر دس منٹ سے بھی کم پر پیشاب آتا ہے۔اگر ہم حساب کریں کہ اوپر کیا ہے تو ہر پانچ منٹ کے بعد ٹوائلٹ میں جاناپڑتا ہے۔اب آپ خود سوچیں کہ جس شخص کو پتہ ہے کہ پانچ منٹ پر مجھے پھر ٹائلٹ جانا ہے۔ وہ لکھنے ،پڑھنے کیلئے توجہ کیسے مرکوز کر سکتا ہے؟جبکہ زیادہ یپشاب کی وجہ سے ساتھ ہی ضعف وغیرہ کے بھی عوارض ہوجاتے ہوں۔اب آپ صرف ایک بات کا جواب دیجئے کہ کیا دنیابنانے والے اللہ کو مسیح اورمہدی کے لئے صرف وہی شخص ملا تھا یا بنایاتھا۔جس کو بجائے دین کے ہر پانچویں منٹ ٹوائلٹ میں جاکر بیٹھنے کی فکر ہو؟کہیں یہ تونہیں کہ مرزاقادیانی نے غلو سے کام لیا ہو۔لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے یا عادتاً؟اورپھر اپنے سو بار پیشاب کا کئی جگہ ذکر کیا ہے۔اگر غلو سے کام لیا ہے توغلو کا دوسرانام جھوٹ ہے۔تومطلب ہے کہ کئی بارجھوٹ بولا؟کیاجھوٹ بولنے والا شخص نبی، محدث،مجدد،صاحب الہام تودور کی بات،کیا روزمرہ کی معمول کی زندگی میں بھی قابل قبول ہے؟
ہسٹریا اورمراق
مراق جو کہ دیوانگی کی ہی ایک قسم ہے ۔ایسا خبیث مرض ہے کہ کسی ولی، مجدد، نبی میں اس کاپایا جانا ناممکنات میں سے ہے۔ مرزاقادیانی کے دعاوی اوران میں درجہ بدرجہ ترقی اس دماغی بیماری کی بدولت ہوئی۔اس سلسلے میں اس بیماری پر نسبتاًتفصیل سے روشی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ’’ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹریا ہے۔بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے۔لیکن دراصل بات