اور حکم ازلی نے باعتبار جہت تقابل کے بھی وہی حساب ’’للذکر مثل حظ الانثیین‘‘ بٹھا کر ایک مرد کو دو عورتوں کے مقابل رکھا ہو۔‘‘ (تفسیر معارف القرآن مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ج۱ ص۵۳۹)
چنانچہ اگر اوّل سے آخر تک کی مردوں اور عورتوں کی تعداد کا کسی کو استحضار نہ بھی ہو تو دنیا بھر میں موجودہ عورتوں کی تعداد سے اس کی تصدیق ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ آج دنیا بھر میں عورتیں مردوں کی نسبت بہت ہی زیادہ ہیں اور غالباً اسی تناسب سے اﷲتعالیٰ نے دو عورتوں کی گواہی اور وراثت کو ایک مرد کے برابر رکھا ہے۔
ان تصریحات وتفصیلات کی روشنی میں واضح ہو جانا چاہئے کہ مرد کی نسبت عورت کی آدھی گواہی کا معاملہ کسی مسلمان کا خانہ زاد یا آنحضرتﷺ کا وضع فرمودہ نہیں۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کا حکم ہے۔ اب جس کو اس پر اعتراض ہو۔ وہ ذات الٰہی سے ٹکر لے اور اﷲتعالیٰ سے خود ہی نمٹے۔
عورت کا وراثت میں آدھا حصہ کیوں؟
۸… ’’والدین کی جائیداد سے عورت کو مرد کے مقابلے میں آدھا حصہ دینے کا کیوں حکم دیا؟ کیا عورت مرد کے مقابلے میں کمتر ہے؟‘‘
جواب… یہاں بھی یہ امر پیش نظر رہنا چاہئے کہ میراث میں مرد کے مقابلے میں عورت کو آدھا حصہ دینے کا حکم آنحضرتﷺ نے نہیں، بلکہ خود اﷲتعالیٰ نے دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ’’للذکر مثل حظ الانثیین (النسائ:۱۱)‘‘ {دو عورتوں کا حصہ ایک مرد کے حصے کے برابر ہے۔}
بہرحال قادیانیوں کو تقسیم میراث کے سلسلے میں آنحضرتﷺ کی مخالفت اور انگریزوں کی حمایت میں مردوزن کی مساوات کا راگ نہیں الاپنا چاہئے۔ بلکہ انہیں اﷲتعالیٰ کی حق وانصاف پر مبنی تقسیم پر سکوت اختیار کرنا چاہئے۔ یہ تو شاید قادیانیوں کو بھی معلوم ہوگا کہ انگریزی دور اقتدار میں خود اسی متحدہ ہندوستان میں قانون رائج ونافذ تھا کہ خواتین حق وراثت سے محروم تھیں اور وراثت کی جائیداد زمین وغیرہ ان کے نام منتقل نہیں ہوسکتی تھی۔ دور کیوں جائیے! اسی انگریزی قانون کی وجہ سے میرے حقیقی دادا کی جائیداد سے میری پھوپھیاں تک محروم رہیں۔ جنہیں ہندوستان کی آزادی اور قیام پاکستان کے بعد ان کا شرعی حصہ دیا جاسکا۔
کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ قادیانیوں اور ان کے سرپرست عیسائیوں کو کبھی اس ظالمانہ قانون کے خلاف آواز اٹھانے کی توفیق ہوئی؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں! تو انہیں اسلام کے عدل وانصاف پر مبنی قانون وراثت پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟