ذہین بھی ثابت ہوتی ہیں۔ تاہم عام فطرت اور اکثریت کے اعتبار سے چونکہ عورت کا مزاج ’’اعصابی‘‘ ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اکثر بھول جاتی ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے اس کی دماغی کیفیت ہی ایسی بنائی ہے۔ لہٰذا دوعورتوں کو ایک مرد کے مقابلے پر رکھا گیا ہے۔
۳… عورتوں کے نقصان عقل اور مرد کے مقابلے میں نصف گواہی کی تائید آنحضرتﷺ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے۔ جو آنحضرتﷺ نے ایک خطبہ میں فرمایا: ’’مارأیت من ناقصات عقل ودین أغلب لذی لب منکن، قالت یا رسول اﷲ! وما نقصان العقل والدین؟ قال: امانقصان العقل فشہادۃ امرأتین تعدل شہادۃ رجل، فہذا نقصان العقل، وتمکث اللیالی ما تصلی وتفطر فی رمضان فہذا نقصان الدین (صحیح مسلم ج۱ ص۶۰)‘‘ {میں نے عقل اور دین کے اعتبار سے ناقصات میں سے ایسا کوئی نہیں دیکھا، جو تم میں سے صاحب عقل کی عقل کو گم کر دے۔ ایک خاتون نے عرض کیا۔ ہم ناقص عقل ودین کیوں ہیں؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ عورت کے نقصان عقل کی وجہ یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے اور اس کے نقصان دین کی وجہ یہ ہے کہ وہ مہینے کے کچھ دنوں اور راتوں میں نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں روزہ نہیں رکھتی۔}
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی شہادت کا ایک مرد برابر ہونا حکم الٰہی ہے۔ البتہ اس کی حکمت آنحضرتﷺ نے یہ ارشاد فرمائی کہ یہ ان کے نقصان عقل کی بناء پر ہے۔ دیکھا جائے تو آنحضرتﷺ نے یہ وجہ اپنی طرف سے ارشاد نہیں فرمائی۔ بلکہ دراصل یہ قرآن کریم کی آیت: ’’ان تضل احدہما فتذکر احدہما الأخریٰ‘‘ کی تفسیر وتشریح ہے۔
لہٰذا جو لوگ عورت کی گواہی کے مسئلے پر اشکال کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں نصف کیوں ہے؟ دیکھا جائے تو وہ لوگ حکم الٰہی کا مذاق اڑاتے ہیں۔
شاید کچھ لوگوں کو یہ خیال ہو کہ خواتین ایسی نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان کو سب باتیں خوب یاد رہتی ہیں تو وہ گواہی کے معاملے میں کیوں بھول سکتی ہیں؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ تجربے سے ثابت ہے کہ عموماً خواتین باتونی تو ہوتی ہیں۔ مگر وہ ادھر ادھر کی باتیں خوب یاد رکھتی ہیں۔ لیکن اصل بات اور معاملے کی جزئیات بھول جاتی ہیں۔
۴… حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند نے عورت کی آدھی گواہی کے سلسلے میں ایک عجیب وغریب نکتہ ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’عجب نہیں کہ مجموعہ بنی آدم میں اوّل سے لے کر آخر تک دو تہائی عورتیں اور ایک تہائی مرد ہوں