اب آپ دیکھیں کہ اس تحریر کا کیا مطلب نکلتا ہے۔٭…اول اگر ایک حدیث قرآن کے مطابق بھی ہے ۔لیکن مرزاقادیانی کی وحی کے مطابق نہیں تو وہ بھی ردی کا کاغذ ہے۔یعنی بالواسطہ طور پر مرزا نے اپنی وحی یا الہام کو قرآن سے بھی برتر قرار دے لیا۔
٭… دوسرے عالم اسلام کے تیرہ سو سالہ علمی ذخیرہ کو اپنے قلم کی ایک جنبش سے کالعدم قرار دے دیا۔حالانکہ صرف اورصرف احادیث سے ہی کسی مہدی یا مسیح کے آنے کی خبر ملتی ہے اور اسی علمی ذخیرہ کو رد کردیا جس سے مرزاقادیانی کو اپنے دعوے کی بنیاد ملی۔ مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے مواد ملا(جس کو مرزاقادیانی نے اپنی مرضی کے مطابق توڑا مروڑا)’’جس تھالی میں کھائے ۔اسی میں چھید کرے‘‘کے مصداق مرزاقادیانی جیسے ’’صاحب لوگ‘‘ ہی ہوتے ہیں۔
٭… جیسا کہ آپ شروع میں مرزا قادیانی کے حوالہ دیکھ آئے ہیں کہ جوشخص احادیث کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتا ہے وہ ہرگز ہرگز مومن نہیں ہوسکتا اوریہاں یہ خود مان رہے ہیں کہ احادیث کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔توپھر اپنے بقول مرزا قادیانی ہرگز ہرگز مومن بھی نہیں، کجا مجدد، مامور، مسیح یانبی وغیرہ وغیرہ۔
مال اکٹھا کرنے کے لئے بے سند (بقول مرزا قادیانی) حدیث بھی کام آتی ہے۔
٭… جب ہر نام پر، ہر خواہش پر مال اکٹھا کرنے کی باری آتی ہے تو اس وقت جو احادیث مرزاقادیانی نے’’بے سند، بے بنیاد‘‘’’ضعیف‘‘اورامام بخاریؒ کی رد کی ہوئی قرار دی ہے ،وہ حدیث مال سمیٹنے کے لئے کسی طرح موم کی ناک کی طرح موڑ کر ’رسول کریمﷺ کی منشائ‘‘۔ ’’رسول اللہﷺ کی پیشگوئی‘‘۔’’جس کی ضرورت حدیث میں تسلیم شدہ‘‘ ۔’’جس کی وجہ سے مسیح موعود کی مسجد اقصیٰ حدیث والی مسجد اقصیٰ ‘‘قرار پاتی ہے۔
٭… حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر نازل ہوں گے۔اس حدیث پر جرح کرتے ہیں اوراس کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ذرا آپ بھی پڑھئے:’’ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرتﷺ کے وقت میں دمشق میں کوئی منارہ تھا،اس سے پایا گیا کہ آنحضرتﷺ کے بعد اگر کوئی منارہ بناتو وہ سند نہیں ہے۔‘‘اسی طرح حضورﷺ کے وقت میں سن ہجری نہ تھا۔یہ سن خلافت دوم میں بنا تو اس حدیث سے سن ہجری کی صدی کیونکر مراد لی جاسکتی ہے اورآنحضرتﷺ کے وقت سن’’فیل‘‘مروج تھا اوراس سن کا سن ہجری سے ۵۳