دیں حالانکہ ان کا کوئی وجود نہیں۔ویسے بھی کئی حدیثیں مرزا قادیانی نے اپنے ذہنی کارخانے میں گھڑی ہیں۔
کس طرح
اب مرزا قادیانی لوگوں کے منہ تو نہیں پکڑ سکتے تھے۔جب علماء کرام نے اعتراض کئے تو مرزا قادیانی کی پرکاری کی انتہادیکھئے کہ اب احادیث کو چھانٹنے کا جواز پیش کرتے ہیں۔
٭… جب مرزاقادیانی نے حدیثوں میں بیان کردہ تفصیلات سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے دعوئوں کے ثبوت میں کچھ حدیثوں کو لے لیا اورکچھ کو جزوی طور پر قبول کیا اورباقی احادیث سے مکمل اغماض وبے تعلقی دکھائی۔اس اغماز کا جواز کیا دیتے ہیں۔:’’تمام احادیث صحیح نہیں۔ بلکہ یعض تلفیق پر مبنی ہیں اوران میں اختلاف بہت ہے اورامت میں افتراق کا باعث احادیث ہوئی ہیں۔انہی کی وجہ سے شافعی، حنبلی، حنفی اورشیعہ فرقے بنے ہیں اورمؤلف امت سے اختلاف کو مٹانے اور قرآن کو قبلہ (کون سے قادیان میں نازل ہونے والے تذکرہ کو یا مکہ مدینہ میں نازل ہونے والے قرآن کو؟۔ناقل)بنانے کے لئے مبعوث ہواہوں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۹، خزائن ج۵ص ایضاً)
ان باتوں کا جواب بھی اس سے قبل آچکا ہے۔اس جگہ موقع نہیں ورنہ سوال اٹھاتا کہ آپ نے کون سااتفاق پیدا کیا اورکتنا اختلاف؟
٭… اوردوسری جگہ لکھتے ہیں:’’جس حالت میں میں بار بار کہتا ہوں کہ خدا نے مجھے مسیح موعود مقرر کرکے بھیجا ہے اورمجھے بتلا دیا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے اورفلاں جھوٹی ہے اور قرآن کے صحیح معنوں سے مجھے اطلاع بخشی ہے۔‘‘ (اربعین۴ص۱۹،خزائن ج۱۷ص۴۵۴)
٭… لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ایسی کوئی فہرست نہیں چھوڑی جس سے ہم جیسوں کو پتہ چل سکے کہ خدان نے ان کو کیا بتایا۔
٭… اورنہ ہی کوئی ایسا ثقہ اصول چھوڑا جس کو اختیار کر کے ایک عام آدمی نہ سہی،ایک عالم ہی کو پتہ چل جاتا کہ مرزاقادیانی نے اللہ تعالیٰ سے آخر کون سااصول پایا جس کو وہ بھی اختیار کر کے صحیح احادیث پیش کرسکے اورغیر صحیح حدیث کے بیان کرنے سے بچ کر لوگوں کے اوراپنے ایمان کو بچاوے۔٭… اورنہ ہی قرآن کاکوئی صحیح معنوں والا ترجمہ جس پر خدا نے ان کو اطلاع بخشی ہے ،اپنے پیچھے چھوڑا۔شاید قادیانی جماعت کے بزرجمہر کچھ بتاسکیں۔