٭… مریدوں کو احادیث پر تنقید کرنے کاراستہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ:’’ بحث کے قواعد ہمیشہ یاد رکھو۔اول قواعد مرتب ہوں۔پھر سوال مرتب ہوں۔کتاب اللہ کو مقدم رکھا جائے۔ احادیث ان کے (کن کے؟۔ناقل) اقرار کے بموجب خودظنیات ہیں۔ یعنی صدق اور کذب کاان میں احتمال ہے ۔ اس کے یہ معنی ممکن ہے سچ ہوں اورممکن ہے کہ جھوٹ ہوں۔‘‘
(ملفوظات ج۴ص۱۵۱)
٭… ان باتوں کا جواب اس سے قبل دیا جا چکا ہے۔لیکن اس کے باوجود جس کو مرزاقادیانی ظنیات قرار دے رہے ہیں ۔یہ بیان کرتے ہوئے نہیں سوچا کہ جب نبی کریمﷺ نے اس دنیا کو رونق بخشی ۔صحابہؓ نے قرآن کریم، آپؐ کے اقوال، عمل غرضیکہ ہر بات کو جس طرح آپؐ نے پیش کیا قبول کیا۔دل ودماغ کی گہرائیوں میں بٹھایا اورآپؐ کی حیات مقدسہ میں اورآپؐ کے بعد اس کو انتہائی دیانتداری اور شغف اورحفاظت کے ساتھ اگلی نسلوں کو منتقل کیا۔اس کے بعد امت کے بہترین افراد کو اللہ تعالیٰ نے احادیث رسولﷺ کی تدوین،ترتیب،تحقیق،تنقید، ترجمہ وتشریح ،تعلیم کے لئے چنااوراحادیث کی تدوین توتابعین کے دور میں شروع ہو چکی تھی اورتابعین کو براہ راست صحابہ کرامؓسے یہ ورثہ منتقل ہوا تھا۔
٭… مؤطا کا مجموعہ رسول کریمﷺ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے تقریباًایک سو بیس برس کے بعد مرتب ہوا اوراس سے اندازاً بیس برس قبل کئی اصحاب ؓرسولﷺ موجود تھے اور بے شمار تابعین موجودتھے۔ان تمام حقائق کے باوجود احادیث کوظنیات قرار دینا کس کاکام ہوسکتا ہے قارئین خود یہ فیصلہ کریں؟
٭… ایک اوربات بھی ہے کہ مرزاقادیانی نے بخاری شریف کو بعدقرآن کے اصح الکتب قرار دیا۔لکھتے ہیں :’’جواصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۴۱، خزائن ج۶ص۳۳۷)اوربخاری شریف اورمسلم شریف کو صحیحین قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر احادیث رسول ﷺ کو ظنیات کہتے ہیں تومرزاقادیانی کا ہی کہنا ہے کہ جھوٹے اورمنافق کے اقوال میں تضاد ہوتا ہے۔اب ان باتوں کو سامنے رکھ کر مرزاقادیانی کو جو مرضی قرار دے لیں۔
احادیث کے متعلق ذہنوں میں شکوک
چونکہ مرزا قادیانی کو یقین تھا کہ یہ عذر کافی نہیں ہوگا ۔دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا کہ احادیث کے ایک بہت بڑے حصہ کے متعلق شکوک ذہنوں میں ڈالنا شروع کر رہے ہیں۔