معنی یہ بنتے ہیں کہ :’’اورآئے گا نتھو تمہارے پاس۔‘‘چونکہ حدیث میں ہمیں حوالہ نہیں ملتا اور قرآن مقدم ہے اس لئے نتھو کے آنے کے خلاف ہر قول مردود ہے اورمرزا قادیانی کے ترجمہ اور تفاسیر بھی اسی طرح کی ہیں۔٭… آخری بات کہ امام بخاریؒ اوردوسرے اماموںؒ نے اپنے اقوال پیش کئے ہیں یا رسول اللہﷺ کے؟
٭… مزید لکھتے ہیں:’’لیکن قرآن شریف ایسے احتمالات سے پاک ہے۔ آنحضرتﷺ کی زندگی قرآن شریف تک ہی ہے۔پھر آپ فوت ہوگئے۔اگر یہ احادیث صحیح ہوتیں اور مدار ان پر ہوتا تو آنحضرتﷺ فرماجاتے کہ میں نے حدیث جمع نہیں کیں۔فلاں فلاں آوے گا تو جمع کرے گا تم ان کو ماننا۔‘‘ (ملفوظات ج۴ص۱۵۱)
٭… مرزا قادیانی کی اس بات کا جواب کچھ تو اوپر بھی دیاجاچکا ہے۔لیکن مرزا قادیانی کی اپنی تحریر(بطور مجدد ،جس کے جبہ میں خدا ہے اور جس کو علم قرآن خدا نے سکھایا ہے اور جس کو خدا ایک لمحہ غلطی پر نہیں رہنے دیتا)جواب دے رہی ہے۔’’حدیثوں کاوہ دوسرا حصہ جو تعامل کے سلسلہ میں آگیا اورکروڑہا مخلوق ابتدا ء سے اس پر اپنے عملی طریق سے محافظ اورقائم چلی آئی ہے۔اس کو ظنی اورشکی کیوں کر کہا جائے؟ایک دنیا کا مسلسل تعامل جو بیٹوں سے باپوں تک اورباپوں سے دادوں تک اوردادوں سے پڑدادوں تک بدیہہ طور پرمشہور ہوگیا اوراپنے اصل مبداء تک اس کے آثار اورانوارنظر آگئے ۔اس میں تو ایک ذرا گنجائش نہیں رہ سکتی اوربغیر اس کے انسان کو کچھ نہیں بن پڑتا کہ ایسے مسلسل عمل درآمد کو اول درجے کے یقینیات میں سے یقین کرے۔پھر جبکہ آئمہ حدیث نے اس سلسلہ تعامل کے ساتھ ایک اورسلسلہ قائم کیا اورامور تعاملی کا اسناد ،راست گو اور متدین راویوں کے ذریعہ آنحضرت ﷺ تک پہنچادیا تو پھر بھی اس پر جرح کرنا درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے جن کو بصیرت ایمانی اورعقل کا کچھ بھی حصہ نہیں ملا۔‘‘
(شہادت القرآن ص۸ ،خزائن ج۶ ص۳۰۴)
٭… اس کے بعد ہم مرزاقادیانی کے استدلال کو قرآن کریم سے پرکھتے ہیں توہمیںیہ جواب ملتا ہے :’’اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئواس کتاب کی طرف جس کو اللہ نے نازل کیا ہے اوررسول کی طرف تو اے رسول! تودیکھے گا کہ ان منافقوں کو کہ اعراض اورروگردانی کرتے ہیں تیری طرف سے۔‘‘ (نساء ع۹)