سلسلہ تعامل کے ساتھ ایک اورسلسلہ قائم کیا اورامور تعاملی کا اسناد،راست گو اورمتدین راویوں کے ذریعہ حضرت محمدﷺ تک پہنچادیا تو پھر بھی اس پر جرح کرنا درحقیقت ان لوگوں کاکام ہے جن کو بصیرت ایمانی اور عقل انسانی کاکچھ بھی حصہ نہیں ملا۔‘‘ (شہادت القرآن ص۸،خزائن ج۶ص۳۰۴)
٭… اور دوسری جگہ اپنے مریدوں کو تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’یاد رکھو کہ جو شخص احادیث کو ردی کی طرح پھینک دیتا ہے وہ ہرگز ہرگز مومن نہیں ہو سکتا کیونکہ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو بغیر مدد احادیث ادھورا رہ جاتا ہے۔جو کہتا ہے کہ مجھے احادیث کی ضرورت نہیں وہ ہرگز مومن نہیں ہوسکتا۔اسے ایک دن قرآن کو بھی چھوڑنا پڑے گا۔‘‘ (ملفوظات ج۱۰ص۲۶۵)
٭… اس موقف کے بعد مرزاقادیانی اوران کی جماعت اب مسیح اورمہدی والی حدیثوں کی تاویلیں اورجرح حتیٰ کہ انکار کیوںکرتی ہے؟کیا اس لئے کہ اس کے بغیر خودساختہ نبوت کا کوئی راستہ نظر نہ آیا؟اب مرزا قادیانی اپنے مقاصد کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔اوپر دیئے گئے دونوں حوالوں کو ذہن میں رکھیں اورپھر دیکھیں کہ کتنی فنکاری سے احادیث کو قرآن کریم کا مقابل قرار دے کر احادیث کے وجود کے بارے میںسوال کھڑے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
٭… مرزا قادیانی نے ایک اور آسان نسخہ ڈھونڈ ا کہ ان کے دعوے چونکہ خروج دجال اور نزول عیسی علیہ السلام کی علامات وآثارنہایت تفصیل کے ساتھ احادیث میں موجود ہیں اوران کے پاس ان سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں۔یا پھر مسلمانوں کی نظر میں منکر حدیث بنیں۔ اس سے بچنے کے لئے مرزاقادیانی کے ذہن نے اس کا حل تویہ ڈھونڈ لیا کہ قرآن اور احادیث کے تعلق کو فنکاری کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل لا کر احادیث کی ضرورت اورعدم ضرورت کے سوالات پیدا کئے جائیں۔میری اس بات کی تصدیق مرزا قادیانی کے یہ اقوال کر رہے ہیں۔
٭… ’’کیا آنحضرتﷺکی ان لوگوں کو وصیت تھی کہ میرے بعد بخاری کو ماننا؟ بلکہ آنحضرتﷺ کی وصیت تو یہ تھی کہ کتاب اللہ کافی ہے۔ہم قرآن کے بارے میں پوچھے جائیں گے نہ کہ زید اوربکر کے جمع کردہ سرمایہ کے بارے میں ۔ یہ سوال ہم سے نہ ہوگا کہ تم صحاح ستہ وغیرہ پر ایمان کیوں نہ لائے۔پوچھا تویہ جائے گا کہ قرآن پر ایمان کیوں نہ لائے۔‘‘
(ملفوظات ج۴ص۱۵۱)٭… یہ بات کر کے سب سے پہلے نمبر پر تو مرزاقادیانی اپنے ہی اس قول کے مصداق بنتے ہیں ؎