احادیث کے مطالب کو اپنی من مانی تاویلات کے بنے ہوئے جال میں دھکیل دیا ۔ بعض حدیثوں کو بیان کرتے ہوئے دانستہ بہت سی باتوں کو چھوڑ گئے اورکچھ کو اس طرح بیان کیا کہ ایک دوسطرحدیث بیان کی اوراس کے ساتھ اپنا تبصرہ اس طرح گڈ مڈ کیا کہ اس طرح ان کو اپنے من مانے معنی پہنچائے اوران کو پیش کر دیا کہ باقی کی حدیث کو گول کر گئے۔ غرضیکہ جو بھی ایک جھوٹا مدعی نبوت، قرآن حدیث اورسنت کے ساتھ کر سکتا ہے۔نہ صرف مرزاقادیانی نے بے دریغ کیا۔ بلکہ آج تک کے آئمہ تلبیس میں وہ اس باب میں بھی ان تمام جھوٹے نبیوں کے سرخیل ثابت ہوئے۔بلکہ خاتم الآئمہ تلبیس ہوئے۔ مرزاقادیانی کی احادیث کی چیرہ دستیاں تو بہت ہیں مگر خاکسار صرف چند ایک مثالوں پر ہی قناعت کرے گا۔ کیونکہ مقصد اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ جب انسان اپنی ذات کو جھوٹے نبی کی ذات میں ڈھال لیتا ہے تو کہاں تک جھوٹ کی نجاست میں منہ مارتا ہے اورجھوٹ کے طومار سے خشک پتوں کے ڈھیروں کی طرح کئی کئی ڈھیر لگا دیتا ہے۔لیکن سچائی کے ایک جھونکے سے ہی یہ ڈھیر اڑنے لگتے ہیں اور جھوٹ کی لاش کو ننگا کر دیتے ہیں۔ اس طرح انسانوں کا سچائی پر یقین اورپختہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر مرزا قادیانی کی ہر ایک چیرہ دستی کاتفصیلی جائزہ لیا جائے تو میرے خیال میں کئی ایک ضخیم کتابیں بھی ناکافی ہوں گی۔ اس لئے اس آرٹیکل کو دیگ میں سے چاول کے ایک دانے کے طور پر ہی قبول کریں۔
احادیث کے بارے میںمرزاقادیانی کی مختلف آراء شروع شروع میں جب مرزاقادیانی اپنی مذہبی کمپنی کی مشہوری کررہے تھے۔تاکہ نبوت کے آئندہ منصوبوں کی راہ ہموار ہو جائے۔کیونکہ اس وقت مرزا قادیانی کو بعض نامور اہلحدیث علماء کا تعاون بھی حاصل تھا اوریہ تعاون رہنے کی امید بھی تھی۔یہ علیحدہ بات ہے کہ بعد میں ان کے ہدایتکاروں نے مرزاقادیانی اوراہل حدیث کے بعض ناموروں کو نوراکشتی میں لگا دیا۔ اس وقت مرزاقادیانی کا اسلام کے مطابق تسلیم شدہ اصول
٭… ’’حدیثوں کا وہ دوسرا حصہ جو تعامل… کے سلسلہ میں آگیا اورکروڑہا مخلوقات ابتداء سے اس پر اپنے عملی طریق سے محافظ اورقائم چلی آئی ہے۔اس کو ظنی اورشکی کیوں کر کہا جائے؟ ایک دنیا کا مسلسل تعامل جوبیٹوں سے باپوں تک اورباپوں سے دادوں تک اوردادوں سے پڑدادوں تک بدیہہ طور پر مشہور ہوگیا اوراپنے اصل مبداء تک اس کے آثار اورانوار نظر آگئے۔اس میں تو ایک ذرہ گنجائش نہیں رہ سکتی اوربغیر اس کے انسانوں کو کچھ نہیں بن پڑتا کہ ایسے مسلسل عمل درآمد کو اول درجے کے یقینیات میں سے یقین کرے۔پھر جبکہ آئمہ حدیث نے اس