گے وہ قانون کی رو سے بچ نہیں سکتے۔بلکہ اس کی زد کے اندر آجاتے ہیں۔دستخط ایم ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور۲۳اگست ۱۸۹۷ئ۔یعنی کہ یہاں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی اشتعال پھیلانے والی تحریریں شائع کرتے ہیں اوران کے پیش نظر دوسروں کی ایذاء رسانی ہوتی ہے۔اب مجھے قادیانی دوستوبتائو کہ نبی اشتعال پیدا کرنے آتاہے یا امن پیداکرنے؟ نبی ایذاء رسانی کے لئے آتا ہے یا عافیت دینے کے لئے؟اورکیا نبی کی یہی اخلاقی حالت ہوتی ہے کہ اس کو عدالت سزا کاخوف دلا کر دوسروں کی ایذاء رسانی سے باز رکھنے کی کوشش کرے؟
٭… ایک دوسری عدالت (ڈپٹی کمشنر جے ایم ڈوئی کی عدالت) میں ایک اقرارنامہ لکھا۔ اس اقرارنامہ کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ :’’مرزاقادیانی آئندہ مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کو بطالوی نہیں لکھیں گے اوروہ (مولوی بٹالوی صاحب) قادیان کو کادیان نہیں لکھے گا۔‘‘خدا کے لئے سوچو کہ کیا ایک نبی اتنا گر سکتا ہے کہ بچوں کی طرح نام بگاڑتا پھرے اور پھر عدالت کے حکم پر باز آئے؟٭… کیا پھر عدالتوں کے احکام کے باوجود دشنام ترازیوں سے کنارہ کشی کرلی؟ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۰۴ء میں پھر تیسری مرتبہ عدالت نے مرزاقادیانی کو وارننگ دی اورپہلی دونوں عدالتوں کا اپنے فیصلہ میں حوالہ دیا۔
ڈھٹائی کاعالم
یہ اس نبی کا حال ہے جس کا دعویٰ ہے کہ :’’ان (علماء ۔ناقل) نے مجھے ہر طرح کی گالیاں دیں مگر میں نے ان کو جواب نہیں دیا۔‘‘ (مواہب الرحمٰن ص۱۸، خزائن ص۲۳۶،ج۱۹)
اگر ابھی جواب نہیں دیا تویہ حال ہے اوراگر جواب دیتے تو پتہ نہیں کیا کرتے؟
فہرست
قادیانی جماعت کے مربیوں نے (یہودیوں کے ربی ہیں دراصل۔ اور یہ م اختصار ہے مہاکامہار بی مطلب یہ نکلا مربی کا۔ بڑے یہودی مولوی) ایک فہرست مرتب کی ہوئی ہے کہ یہ گالیاں قرآن شریف میں ہیں یا نبی کریمﷺ نے استعمال کیں۔ (معاذ اﷲ)
٭… یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ قرآن شریف میں گالیاں ہیں۔قرآن شریف اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے ۔کسی انسان کی نہیں جس سے جواب طلب کریں۔ مرزا قادیانی کا ایک شعر ہے کہ
تیرا صحیفہ چوموں
قرآن کے گرد گھوموں