جائے اورپھانسی دی جائے اورمیرے دعوے جھوٹے سمجھے جائیں۔ اب جب عبداللہ آتھم مرزا قادیانی کی پیشگوئی کے مطابق پندرہ ماہ کے (۵؍جون ۱۸۹۳ء سے ۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء تک) اندر نہ مرا تو نہ صرف یہ کہ اپنی اس جھوٹی پیشگوئی پر شرمندہ ہوتے۔توبہ کرتے۔ الٹا اپنے آپ کو بزعم خود تاویلوں اورجھوٹ کے سہارے سچاقرار دینا شروع کر دیا۔ بلکہ جنہوں نے اس حقیقت کااظہار کیا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔اس کے علاوہ کئی قریبی ساتھی نہ صرف ان کو چھوڑ گئے بلکہ عیسائی بھی ہوگئے۔ان کے بارے میں کیافرماتے ہیں’’اب جو شخص اس صاف فیصلہ کے برخلاف شرارت اورعناد کی راہ سے بکواس کرے گا اوراپنی شرارت سے بار بار کہے گا کہ عیسائیوں کی فتح ہوئی اورکچھ شرم وحیا کو کام میں نہیں لائے گا اور بغیر اس کے جو ہمارے اس فیصلہ کا انصاف کی رو سے جواب دے سکے ۔انکار اورزبان درازی سے باز نہیں آئے گا اورہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا توصاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔‘‘
(انوارالاسلام ص۳،خزائن ج۹ص۳۱)
مرزاقادیانی کے فتح کے اپنے پیمانے ہیں اور جو ان کے پیمانوں اورفیصلوں کو تسلیم نہ کرے وہ ان کی نظر میں صرف بے شرم و بے حیا ہی نہیں بلکہ ولد الحرام ہے ۔کیا اللہ کے بنائے ہوئے نبیوں کی زبان اورتحریر اور سوچ کا یہی معیار ہوتا ہے؟کیا یہ بیان کردہ مثالیں مرزا قادیانی کے اپنے ہی بیان کردہ معیار امام الزمان کے مطابق ہیں؟
مخالفین کواکسانا مخالفوںکو مزید کس کس طرح مشتعل کیا جاتا ہے کہ پہلے اپنی کتاب کو قرآن شریف قرار دیتے ہیں۔بالواسطہ طور پر۔اس کے بعد دوسروں کو گالی نکال کر اپنے رسالے کا جواب لکھنے کے لئے اکساتے ہیں۔اگر قرآن شریف کو ہی خیال کرلیں یا نعوذ باللہ مرزا قادیانی کے مطابق ان کی وحی قرآن کریم کے برابر ہے ۔کچھ لمحوں کے لئے قرآن کی تشریح بھی سمجھ لیں تو کیا مخالفین کو اکساکر ،اشتعال دلا کر اوربرے الفاظ کہہ کر جواباًگالیاں تولے سکتے ہیں مگرعلمی بحث نہیں ہوسکتی اورنہ ہی کوئی معقول جواب مل سکتا ہے۔
٭… ارشاد مرزا ہے ’’ہر شخص جو ولدالحلال ہے اورخراب عورتوں اوردجال کی نسل میں سے نہیں ہے ۔تووہ دوباتوں میں سے ایک بات ضرور اختیار کرے گا یا تو اس کے بعد دروغ گوئی اور افترائسے باز آجائے گا یا ہمارے اس رسالہ جیسا رسالہ بنا کر پیش کرے گا۔‘‘
(نور الحق ص۱۲۳، خزائن ج۸ ص۱۶۳)