٭… دیکھتے ہیں کہ جس بات سے دوسروں کو منع کررہے ہیں اوراتنے دھڑلے سے دعویٰ کر رہے ہیں اس پر عمل درآمد کیسے ہوتا ہے؟ کچھ مثالیں حاضر ہیں فرماتے ہیں۔
٭… ’’اے بدذات فرقہ مولویاں! تم کب تک حق کو چھپائو گے۔کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہود یانہ خصلت چھوڑو گے۔اے ظالم مولویو!تم پر افسوس!تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا وہی عوام کالا نعام کو بھی پلایا۔‘‘ (انعام آتھم ص۲۱،خزائن ج۱۱ ص۲۱)
٭… ’’مگر کیا یہ لوگ قسم کھالیں گے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اورکتوں کی طرح جھوٹ کا مردارکھا رہے ہیں۔‘‘ (انجام آتھم، ضمیمہ ص۲۵،خزائن ج۱۱ص۳۰۹)٭… ’’توکیا اس دن یہ احمق مخالف جیتے ہی رہیں گے اورکیا اس دن یہ تمام لڑنے والے سچائی کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوجائیں گے ۔ ان بیوقوفوں کو کوئی بھاگنے کی جگہ نہیں رہے گی اورنہایت صفائی سے ناک کٹ جائے گی اورذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سوروں کی طرح کر دیں گے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳،خزائن ج۱۱ص۳۳۷)
٭… ’’ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں اورکیا لکھیں کہ اے بدذات یہودی صفت پادریوں کا اس میں منہ کالا ہوا اورساتھ ہی تیرابھی اورپادریوں پر ایک آسمانی لعنت پڑی اور ساتھ ہی وہ لعنت تجھ کو کھا گئی۔ اگر تو سچا ہے تو اب ہمیں دکھلا کہ آتھم کہاں ہے۔ اے خبیث کب تک تو جئے گا۔‘‘ (انجام آتھم ص۴۵، خزائن ج۱۱ص۳۲۹)
حلال زادہ کون
مرزاقادیانی کا اپنے خاص الخاص صحابیوں کی معیت میں عیسائیوں سے مباحثہ ہوا جو پندرہ دن تک چلا اور باوجود مرزا قادیانی کے بقول ان کے اندر روح القدس کے کام کرنے کے،خدا کے ارادہ مرزا قادیانی کے ارادہ کے تحت ہونے کے، اورکن فیکون کی طاقت ہونے کے بے نتیجہ رہا۔ سچے ہوتے تو نجران کے عیسائیوں کی طرح چند گھنٹے میں فیصلہ ہو جاتا۔ مقابل پر عیسائیوں کی ٹیم عبداللہ آتھم کی سرکردگی میں حصہ لے رہی تھی۔ اس وقت یہ اتنا مشہور ہوا کہ سارے ہندوستان کی نظریں اس پر لگی ہوئی تھیں۔ مرزاقادیانی نے پندرھویں دن بغیر مخالف ٹیم سے مشورہ کئے مباحثہ کے اندراعلان کر دیا اورکہا کہ عام بحث مباحثہ تو ہوتے رہتے ہیں ۔لیکن میں حیران تھا کہ مجھے خدا نے اس میں کیوں ڈالا ہے۔ مجھے خدا نے کہا ہے کہ فریق مخالف آج کی تاریخ سے پندرہ ماہ کے اندر اپنے غلط عقائد سے توبہ نہیں کرے گا تو اس مدت میں ہاویہ میں بسزائے موت گرایا جائے گا اورخدا کی بات ٹلے گی نہیں۔ اگر نہ مرا تو میرے گلے میں رسہ ڈالا