اخلاق‘‘چونکہ اماموں کو طرح طرح کے اوباشوں اور سفلوں اوربدزبان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لئے ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے تاکہ ان میں طیش نفس اور مجنونانہ جوش پیدا نہ ہو اورلوگ ان کے فیض سے محروم نہ رہیں۔ یہ بات نہایت قابل شرم ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رذیلہ میں گرفتار ہو اوردرشت بات کا ذرا بھی متحمل نہ ہوسکے اور جو امام زمان کہلا کر ایسی کچھ طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ بات پر منہ میں جھاگ آتا ہے۔ آنکھیں نیلی پیلی ہوجاتی ہیں وہ کسی طرح بھی امام زمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس پر آیت انک لعلی خلق عظیم کا پورے طور پرصادق آنا ضروری ہے۔‘‘ (ضرورۃ الامام ص۸، خزائن ر۱۳ص۴۷۸)
٭… آئیے ہم مرزاقادیانی کے افکار کی روشنی میں مختصراً جائزہ لیں کہ وہ کہاں تک اپنے ہی تسلیم کئے ہوئے معیار پر پورا ترتے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہوگی کہ ہم بجائے فیصلہ دینے کے حقائق پیش کریں اورفیصلہ آپ پرچھوڑ دیں۔ کہیں کہیں آپ کو ہماری رائے اوررد عمل بھی ملے گا۔مگر ہم نے حتیٰ الامکان فیصلہ اورنتیجہ پڑھنے والے پر چھوڑا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ یہ سلطان القلم ہیں یا شیطان القلم؟
اظہار ندامت یا دھمکی
مرزا قادیانی کی اپنے ہم مکتب مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب سے بڑی گاڑھی چھنتی تھی ۔بعد میں چپقلش (غالباً آقائوں کے اشارہ پرنوراکشتی) ایک لمبا عرصہ تک چلتی رہی۔ یہ وہی محمد حسین بٹالوی صاحب ہیں جنہوں نے چینیاں والی مسجد لاہور کی اپنی امامت، اپنے حلقہ احباب اوراپنے رسالہ اشاعت السنہ نیز اشتہاروں کے ذریعہ بے پناہ اورمبالغہ آمیز پروپیگنڈہ کرکے مرزا قادیانی کے منصوبوں کے لئے بنیادی پتھر مہیا کیا۔دونوں ہی انگریزوں کے بہی خواہ تھے اور انگریزوں کے مقاصد کو تقویت فراہم کرتے تھے اورہمارے خیال میں اپنی مارکیٹ قائم رکھنے کے لئے ،خبروں میں رہنے کے لئے ،لوگوں کو دھوکے میں رکھنے کے لئے ایک دوسرے کو پبلک میں رگیدتے تھے۔ مقابلہ بازی کے دوران بٹالوی صاحب کے مقابلہ میں کسی قدر درشت زبان بھی استعمال ہوتی تھی۔کسی موقعہ پر زیادہ ہی سخت زبان استعمال کرکے احساس ہوا کہ طے شدہ حدود سے تجاوز ہوگیا۔ اس تجاوز پر اب کیسی ندامت کااظہار ہورہا ہے کہ ساتھ ہی حشر نشر کی دھمکی بھی ہے۔’’میں نادم ہوں کہ نااہل حریف کے مقابلہ نے کسی قدر مجھے درشت الفاظ پر مجبور کیا ورنہ میری فطرت اس سے دور ہے کہ کوئی تلخ بات زبان پر لائوں۔ مگر بٹالوی اوراس کے استاد نے مجھے بلایا۔اب بھی بٹالوی کے لئے بہتر ہے کہ اپنی پالیسی بدل لیوے اورمنہ کو لگام دیوے ورنہ ان دنوں