سمجھ دار کی نظر میں ایک مخبوط الحواس شخص قرار پائیں۔ کیوں کہ مرزا قادیانی لکھتے ہیں’’ اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تنا قض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۸۴ ، خزائن ج ۲۲ص۱۹۱)
شاید یہ بات ہو کہ بدنام ہوں گے تو کیانام نہ ہوگا۔
اس آرٹیکل میں ہم آپ کے سامنے ان کی چند گل افشانیاں پیش کریں گے۔ اگر سب کواکٹھا کریں تو یہ ایک پورے رسالے کا مواد بن جائے گا۔ مگر یہاں ہمارا مقصد اپنے موقف کی تائید کے لئے صرف مرزا قادیانی کی دشنام دہی کے کچھ نمونہ جات کو دکھانا ہے۔ ویسے بھی تو دیگ سے چاول کے چند دانے ہی بتادیتے ہیں کہ اندرکیا ہے۔
قرآن کریم کے اس حوالے کو پیش کرتے ہوئے ہم مضمون شروع کرتے ہیں۔ ’’وقل لعبادی یقولوا التی ہی احسن ان الشیطٰن ینزع بینھم ان الشیطٰن کان للانسان عدوا مبینا‘‘یعنی اے رسول ﷺ میرے بندوں سے کہہ دیں کہ بات بہت ہی اچھی کہا کریں ، سخت کلامی سے شیطان ان میں عداوت ڈلوا دے گا، بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘اس آیت کے پیش کرنے کا مقصد برکت کے علاوہ اس مضمون سے اس کا ہر طرح سے تعلق ہے۔ نیز مرزاقادیانی کا دعویٰ عام مسلمان کا نہیں بلکہ ایسی ہستی ہونے کا ہے جس کو خدا نے ہر ذی روح سے زیادہ قرآن کریم کے معارف سکھائے ہیں۔ اس مضمون سے ان کے اس دعویٰ کابھی صحیح اندازہ ہوجائے گا۔
حدیث شریف چونکہ قرآن کریم کی تشریح ہے اورپیارے نبی ﷺکے منہ کی باتیں ہیں اس لئے بہتر سمجھا گیا کہ اس کو بھی پیش کر دیاجائے۔ رسول پاک ﷺ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے منافق کی ایک یہ نشانی بھی بتائی ہے کہ: ’’جب کسی سے اس کاجھگڑا ہوجائے تو وہ گالیاں دینے لگتا ہے۔‘‘ آئندہ سطور سے انشاء اللہ یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ کیا مرزا قادیانی حدیث کے مطابق مومن بھی دور کی بات لگتی ہے منافق تو نہیں؟
دشنام دہی نہ نہ:مرزا کادعویٰ ہے کہ وہ نہ تو سخت زبان استعمال کرتے ہیں اوران کے منہ یا قلم سے بھی کوئی دشنام دہی نہیں ہوئی۔
٭… مرزا قادیانی کا یہ دعویٰ ہے کہ: ’’میں سچ سچ کہتا ہوں جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس کو دشنام دہی کہا جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۳، خزائن ج۳ص۱۰۹)
٭… ایک دوسری جگہ اپنے عمل کی توجیہہ یا تشریح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں ’’قوت