غرضیکہ ہر پہلو سے تضادات سے بھرپور تھی۔ اس طرح کی اوراتنی متنازع زندگی شاید ہی کسی کی ہو۔ بانی جماعت احمدیہ نے ایک جگہ جو بات کہی یا لکھی۔دوسری جگہ اس کی تردید یا اس کے متناقض بات لکھ دی یا کہہ دی اوراس سلسلے میں نہ تو عام آدمی اورنہ ہی کوئی امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ اور نہ ہی انبیاء کرام کو ان ’’سلطان الظلم‘‘کے قلم سے پناہ ملی۔
٭… ایک طرف امت مسلمہ کے عقائد سے مکمل اتفاق ظاہر کرتے ہیں اوردوسری طرف انہی عقائد کی جڑوں پر حملہ کرتے ہیں۔ قرآن وسنت کی تشریح کے نام پر غلط عقائد وضع کرتے ہیں۔
٭… ایک طرف رسول ﷺ کی اطاعت و خاتمیت کا اقرار کرتے ہیں۔ دوسری طرف اس کی تشریح میں خاتمیت کو اپنے لئے مخصوص کرلیتے ہیں۔
٭… ایک طرف عصمت انبیاء کاتذکرہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف انہی انبیاء کی عصمت تار تار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
٭… ایک طرف قرآن کریم کی صحت کااقرار کرتے ہیں۔ دوسری طرف اسی قرآن کی آیات میں نہ صرف تحریف کرتے ہیں بلکہ ان میں شکوک ڈالتے ہیں۔٭… ایک طرف احادیث کو مانتے ہیں۔دوسری طرف انہی احادیث کو کوڑے کا ڈھیر قرار دیتے ہیں۔
٭… ایک طرف ایک بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں ۔دوسری طرف ساری عمر دوسری بیوی کے حقوق غصب کرتے ہیں۔
٭… ایک طرف اسلام کی بات کرتے ہیں۔ دوسری طرف انہی مسلمانوں کے ساتھ تعلقات سے اپنے پیروکاروں کو منع کرتے ہیں۔
٭… ایک طرف اپنے ڈاکٹر سالے کو بوڑھی انگریز عورت سے مصافحہ کرنے سے بھی منع کرتے ہیں۔ دوسری طرف خود پوری پوری رات تنہائیوں میں ناکتخدالڑکیوں سے ذاتی خدمت اس طرح کرواتے تھے کہ ان کو سرور میں نہ تھکن ہوتی تھی نہ نیند اورنہ غنودگی۔
٭… اسی طرح ایک طرف دشنام طرازی کو سخت برا کہتے ہیں۔ دوسری طرف اسی دشنام طرازی سے مخالفوں کا سینہ چھلنی کرتے ہیں۔
٭… اس طرح مرزا قادیانی کوبلا تکلف اورتوقف تضادات کا ابدی شہنشاہ کا خطاب دیا جا سکتا ہے۔
٭… یہ علیحدہ بات ہے کہ مرزا قادیانی اپنے ہی دیئے ہوئے معیار کے مطابق ہمیں اور ہر