زندہ رکھ کر ان کو دنیا کی زندگی سے نفع اٹھانے اور آخرت کے معاملے میں غور وفکر کا موقع دیتے۔ ظاہر ہے کہ دوسری صورت ہی قرین عقل وقیاس ہے۔
پھر غلاموں کو زندہ رکھ کر یا تو یورپی اقوام کی طرح ان کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا۔ یا پھر انہیں مسلم معاشرے کا حصہ بننے، مسلمانوں میں شادی بیاہ کرنے اور اسلامی معاشرے کی لازوال خوبیوں سے سرفراز ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا۔ چنانچہ اسلام نے غلاموں کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکاح کے معاملے میں مسلمان غلاموں کو مشرکین پر اور مسلمان لونڈیوں کو کافر ومشرک خواتین پر ترجیح دی (البقرہ:۲۲۱،۲۲۲) اور ان کے حقوق بھی متعین فرمائے۔
عیسائیوں اور قادیانیوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ مسلمان، لونڈیوں کے ساتھ بلا نکاح جنسی تعلقات کیوں قائم کرتے ہیں؟
اگر کوئی مسلمان یہ اعتراض کرتا تو شاید قابل سماعت ہوتا۔ مگر وہ لوگ، جن کی جنسی بے راہ روی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہو۔ جن کے ہاں نکاح کی بجائے زناکاری اور بدکاری کو قانونی تحفظ حاصل ہو اور جن کے بڑے، چھوٹے اس بلا میں گرفتار ہوں ان کو اس اعتراض کا کیا حق پہنچتا ہے؟ بہرحال ہم اس کا بھی جواب دئیے دیتے ہیں۔
الف… ہم نے گزشتہ صفحات میں بائبل کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے کہ: ’’لابن نے اپنی لونڈی زلفہ، اپنی بیٹی لیاہ کے ساتھ کر دی کہ اس کی لونڈی ہو۔‘‘
اسی طرح ’’اور لیاہ کی لونڈی زلفہ کے بھی یعقوب سے ایک بیٹا ہوا۔‘‘ بتلایا جائے اس میں لونڈی سے نکاح کا کہاں تذکرہ ہے؟ ایسے ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں وارد اس تصریح میں کہ: ’’سلیمان کی سات سو بیویاں اور تین سو کنیزیں تھیں۔‘‘ (سلاطین:۱۱۔۳) میں بیویوں اور کنیزوں میں فرق کیوں کیاگیا؟ اور کنیزوں سے ان کے نکاح کا کہاں تذکرہ ہے؟
ب… غلام اور لونڈیاں جب مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں تو ظاہر ہے ان کا اپنے اپنے سابقہ ملک وقوم اور رشتہ داروں سے تعلق منقطع ہوگیا۔ اب یا تو انہیں یوں ہی جنگی قیدیوں کی طرح زندگی بھر اذیت میں رکھا جائے اور ان کے جنسی تقاضوں کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے۔ جو بالکل ناجائز اور ظلم ہوگا۔ یا پھر انہیں بدکاری وزناکاری کی اجازت دے دی جائے۔ جس سے شاید ان کی جنسی تسکین تو ہو جائے گی۔ مگر اس سے جہاں ان کی دنیا وآخرت برباد ہوگی اور وہ معاشرے پر بدنما داغ ہوں گے۔ وہاں وہ مسلم معاشرے میں گندگی، غلاظت اور معاشرتی بے راہ روی کا ذریعہ