نظر میںہی دیکھ لیتا ہے کہ مرزاقادیانی اگر مسلمان تھے تو انہوں نے توفیق ہونے کے باوجود حج نہ کیا اوراوپر سے عذر بھی بے تکے پیش کئے اوراس کہاوت کو سچ ثابت کردیا کہ عذر گناہ ، بدترازگناہ۔‘‘
اصل بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے خدا کے نام پربہتان باندھا اورخدا نے مجدد ، محدث ،مثیل مسیح ، پھر موعود( اورنہ جانے کیاکیابلا) نیز ان کو وحی ہوئی۔ نبی اوررسول کہا۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ جس حیثیت میں بھی جس معاملہ میں بھی اورجب بھی مرزا قادیانی نے تحدی سے کوئی پیشگوئی کی۔ خدا نے وہ کبھی پوری نہیں ہونے دی(اور نہ ہونے پر تاویل درتاویل، پیش کرتے رہے) اس لئے کہ وہ خدا پر اپنی وحی ، نبوت ورسالت کا بہتان باندھ رہے تھے۔ اسی طرح حج کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہی ان کے منہ سے ایسے بے تکے جواب نکلوائے اوران کے خانہ کعبہ کو دیکھنے کے بھی اسباب پیدا نہ ہونے دیئے اوران کے دل اوردماغ پر مہر لگاکر ایسے بے تکے جواب نکلوادیئے۔ تاکہ یہ کاذب نبی اوراس کے کذب کو لے کر چلنے والے اپنے دعوے کی کاذبیت کو چھپائے نہ چھپاسکیں اورہر پہلو سے ان کا کذب باربار تاقیامت ظاہر ہوتا رہے۔
مرزا قادیانی نے نہ صرف حج نہیں کیا۔ بلکہ الفاظ کے ہیر پھیر میں دوسروں کو بھی حج سے روکتے رہے۔ پڑھئے اورسر دھنئے: ’’ دیکھو حج کے واسطے جانا خلوص اور محبت سے آسان ہے۔ مگرواپسی ایسی حالت میں مشکل ۔ بہت ہیں جووہاں سے نامراد اورسخت دل ہوجاتے ہیں۔ اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ وہاں کی حقیقت ان کو نہیں ملتی۔ قشر کو دیکھ کر رائے زنی کرنے لگ جاتے ہیں۔ وہاں کے فیوض وبرکات سے محروم ہوتے ہیں۔ اپنی بد کاریوں کی وجہ سے اورپھر الزام دوسروں پر دھرتے ہیں۔ اس واسطے ضروری ہے کہ مامور کی خدمت میں صدق اوراستقلال سے کچھ عرصہ رہا جاوے۔ تاکہ اس کے اندرونی حالات سے بھی آگاہی ہواورصدق پورے طور پر نورانی ہوجاوے۔‘‘
(الحکم ج۷ نمبر۱۰ ص ۳،۴،۱۷؍مارچ ۱۹۰۳ئ،ملفوظات ج ۵ص ۱۷۷)
٭… اگر ہم اوپردیئے گئے حوالہ کاگہرائی سے تجزیہ کریں تو یہ ایک پورے مضمون کا متقاضی ہے۔ لیکن مختصراً چند نکات پیش کرتا ہوںـــ:
٭… محبت اورخلوص کے ساتھ حج پر جانا آسان ہے اورواپسی پر بجائے ان میں بہتری کے جانے والی حالت میں بھی مشکل ہے۔
٭… بہت ہیں۔ یعنی کافی زیادہ ہیں جو بجائے بامراد ہونے کے نامراد ہوکر اوربجائے نرم