جیساکہ پہلے بھی بیان کیا ہے کہ صوفیاء کی اصطلاح میں بروز کے یہ معنی ہیں ناقص درجہ کی روح، کسی کامل کی روح سے استفاضہ کرے۔ اب مرزاقادیانی کس طرح رسول کریمﷺ کی اہمیت کم کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی کے بیٹے لکھتے ہیں: ’’پھر حضرت مسیح موعود نے آنحضرتﷺ کو بھی بروزی نبی قرار دیا ہے چنانچہ فرمایا چونکہ تکمیل ہدایت کے لئے آپ (ص) نے دو بروزوں میں ظہور فرمایا تھا۔ ایک بروز موسوی، دوسرے بروز عیسوی۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ، ص۹۸، خزائن ج۱۷ ص۲۵۷، الفضل قادیان، ج۳، نمبر۸، ۱۳؍جولائی ۱۹۱۵ئ) اگر ہم مرزاقادیانی کی لن ترانیوں کو تسلیم کرلیں تو ماننا پڑے گا کہ نعوذباﷲ نبیوں کے سردار، شافع دوجہاں، رحمت اللعالمین، فخر الانبیائ، خاتم النبیین کی روح ناقص درجہ کی تھی اور جو رسول پاکﷺ کے مقتدی تھے، ان کی روح کو کامل قرار دے دیا۔ ایک اور پہلو سے اگر مرزاقادیانی کا یہ ترجمہ؍ تشریح فرضی طور پر صحیح مان لیں اور خیال کرلیں کہ بروز بہتر ہے، کامل ہے اصل سے تو مرزاقادیانی نے رسول پاک کو تو صرف دو نبیوں کا بروز قرار دیا ہے لیکن خود کو تمام انبیاء کا بروز قرار دیا ہے، یعنی اس طرح بھی اپنی برتری دکھانے کی کوشش کی ہے۔ کیا یہ رسول پاکﷺ کی توہین نہیں؟
مرزاقادیانی ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’مگر ایسے جاہلوں کا ہمیشہ سے یہی اصول ہوتاہے کہ اپنی بزرگی کی پٹڑی جمنا اسی میں دیکھتے ہیں کہ ایسے بزرگوں کی خواہ مخواہ تحقیر کریں۔‘‘ (ست بچن، ص۸، خزائن ۱۰ ص۱۲۰) خود اپنے اس ارشاد پر عمل کیسے کرتے ہیں، ان کے بیٹے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اگر کوئی نادان کہے کہ وہ (مرزاقادیانی) تو مجددوں میں سے ایک مجدد تھے، خدا کے نبی کیونکر ہوسکتے ہیں تو میں کہوں گا یوں تو تمام انبیاء مجدد ہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ افضل الرسل محمد رسولﷺ کو بھی ہمارے امام (مرزا قادیانی) نے مجدد ہی لکھا ہے۔‘‘ دیکھو (لیکچر سیالکوٹ ص۵، خزائن ج۲۰ ص۲۰۶، الفضل قادیان، ج۲، ن ۹۶ ص۳، ۲۶؍جنوری ۱۹۱۵ئ) کیا ہادی برحق، فخرالانبیائ، ختم لمرسلین کو، رحمت اللعالمین جن کی پیروی کا انکار انبیاء بھی نہیں کرسکتے ان کو (ﷺ) مجدد لکھ کر ان کا درجہ اس سطح پر لانا کہ جس کی پیروی ضروری نہیں، جو اپنی آمد کا اعلان کرنے کا پابند بھی نہیں صحیح ہے؟ کیا یہ رسول پاکﷺ کی توہین نہیں؟
لکھتے ہیں: ’’اس زمانے میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راست باز اور مقدس نبی گزرچکے ہیں، ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں تو وہ میں ہوں۔‘‘ (براہین احمدیہ پنجم، ص۹۰، خزائن ج۲۱ ص۱۱۷) اب آپ دیکھیں کہ اﷲ تعالیٰ کے قرار دیئے ہوئے نبیوں کے سردار رسول کریمﷺ نے بھی اس قسم کا دعویٰ نہیں کیا۔ حالانکہ نبیوں کے سردارﷺ میں تمام انبیاء کی خوبیاں، اﷲ تعالیٰ نے یکجا کردی تھیں لیکن مرزا نے یہ دعویٰ کردیا۔ کیا یہ رسول پاکﷺ کی توہین نہیں؟
لیکن بات صرف یہاں تک ہی نہیں رہتی بلکہ جس طرح خود پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کے خلاف کرتے رہے اور شریعت واخلاق کا جنازہ نکالتے رہے، پنجابی کہاوت کہ ’’چور دوسروں کو کہے چور‘‘ کے مصداق، نعوذباﷲ من ذالک رسول پاکﷺ کو بھی گرا ہوا انسان ثابت کرنے کی ناپاک کوششیں کیں اور بے بنیاد اتہامات ان کی ذات اقدس پر لگانے کی کوشش کی، کئی مثالیں ہیں لیکن صرف دو اور مثالیں پیش کروں گا۔ خنزیر جس کی حرمت مذہب اسلام نے بیان کی ہے اور رسول پاکﷺ سے بڑھ کر کوئی بھی اس حرمت کو قائم اور دائم رکھنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ان کی ذات اقدس پر یہ گندے، ذلیل، کراہیت آمیز الزام لگاتے ہوئے مرزا کا قلم کانپا نہ حیا آیا، نہ خدا خوفی محسوس ہوئی، ہوتی بھی کیسے اپنے آپ کو کائنات کا افضل ترین انسان جو سمجھتے تھے۔